آج کل کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر انور کے فوٹو دکھاتے ہیں۔ کچھ لوگوں نے اسی فوٹو کو انٹرنیٹ پر بھی جاری کر دیا ہے۔ جو ان کے کہنے کے مطابق گذشتہ صدی میں کسی طرح کسی نے لیے تھے۔ (یہ فوٹو اوپر دکھائی گئی ہے۔) اس فوٹو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر سطح زمین سے کافی اونچی اور چادروں سے دھکی ہوئی نظر آرہی ہے۔ سرہانے عمامہ نظر آرہا ہے۔ قارئین کرام جس جگہ گذشتہ پانچ سو برس سے کوئی انسان داخل نہ ہوا اور جہاں جنیدؒ و بایزیدؒ جیسے اولوالعزم اولیاء اللہ اپنے سانس روک کر زیارت کیلئے حاضر ہوتے ہوں۔ اور فرشتے جب سلام کرنے کیلئے جھکتے ہیں تو اپنے پروں کی آواز تک نہیں آنے دیتے وہاں فوٹو کیسے لیا جاسکتا ہے۔؟ ان تصاویر کے سوداگر خواہ وہ یہ کام جہالت سے کر رہے ہیں یا مالی منفعت کیلئے۔ وہ اپنی عاقبت کیلئے کوئی اچھا سودا نہیں کر رہے۔ اور مصنوعی تصویریں بنا کر لوگوں کی عقیدت سے کھیل رہے ہیں ہوسکتا ہے یہ یہودی ذہن کی اختراع ہو۔ تاکہ سادہ لوح مسلمانوں کے دلوں سے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و عقیدت کو کم کیا جائے۔ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی آرام گاہ میں ان دنوں بہت سے سربراہان مملکت جو پرلے درجے کے فاسق اور فاجر اور اسلام سے بیزار ہیں وہ حاضری دیتے ہیں؟ آج کل سعودی حکومت کے زیر سایہ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ پاک کی زیارت کیلئے اندر جانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ یہ سب فراڈ دھوکا اور غلط بیانی سے کام لیتے ہیں۔ یہ مسلم ممالک کے سربراہان مملکت کو خوش کرنے کی سعودی حکومت کی ڈپلومیسی ہے ورنہ جہاں فرشتے سرجھکا کرحاضری دیں آج کل کے بدکردار اور اخلاق باختہ سربراہان مملکت کس منہ سے اندر جاکر حاضری دیتے ہیں؟ قارئین کرام ان سطور کو ہم جناب فیروز الدین احمد فریدیؔ صاحب کے ایک مضمون ’’پھر دیکھ مجھے شہر محبت نے بلایا‘‘ سے اخذ کرکے لکھ رہے ہیں جو روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہوا اور بعدازاں ’’ماہنامہ جہان رضا لاہور‘‘ بابت دسمبر2003 میں شائع ہوا ۔ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جس جگہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرما ہیں یہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا حجرہ ہے۔ جس میں جنوب مغرب یعنی قبلہ اور ریاض الجنہ کی اطراف سے پہلی لحد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اور اس سے ذرا اور نیچے شمال کی جانب آپ علیہ الصلوٰۃ و السلام کےسسر اور خلیفہ اول حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ‘ اور اس سے ذرا نیچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے سسر اور خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ‘ کی قبریں ہیں۔ یہ تینوں قبریں تقریباً ایک مربع شکل کی مہر بند چار دیواری میں ہیں جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا حجرہ ہوتی تھیں۔ اس چار دیواری کے گرد ایک ’’پانچ دیواری‘‘ کھڑی ہے، زائر کو جالی کے اندر سے جو کچھ نظر آتا ہے۔ وہ اس ’’پانچ دیواری‘‘ کا جنوبی یعنی قبلہ کے رخ والا حصہ ہے۔9ہجری بمطابق (710 عیسوی) میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے تقریباً 80 برس بعد اموی خلیفہ ولید بن عبدالمالک نے مدینہ کے گورنر حضرت عمر بن عبدالعزیز کو مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی توسیع کا حکم دیا۔ چنانچہ انکی ہدایت پر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کو چھوڑ کر باقی تمام امہات المومنین کے حجروں کو گرا کر مسجد نبوی میں شامل کر لیا گیا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجر ہ کو ناصرف برقرار رکھا بلکہ اس کے گرد ایک اضافی دیوار بھی بنوائی۔ لیکن اس تعمیر و توسیع کے عمل میں جب تمام حجرے گرائے جارہے تھے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کی مشرقی دیوار بھی گر گئی اس بارے میں ایک معاصر عبداللہ بن محمد بن عقیلؒ بتاتے ہیں۔ اس رات مدینہ میں بارش ہو رہی تھی۔ میرا معمول تھا کہ رات کے آخری حصے میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضری دیتا۔ پہلے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر درود سلام بھیجتا اور پھر نماز فجر تک مسجد نبوی میں رہتا۔ میں حسب معمول رات کو نکلا ابھی میں مغیرہ بن شعبہ کے مکان کے پاس پہنچا ہی تھا۔ کہ اچانک خوشبو آئی جو میں نے کبھی محسوس نہیں کی تھی۔ مسجد نبوی پہنچا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے حجرے کی ایک دیوار گری ہوئی ہے۔ میں اندر چلا گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سلام پیش کیا۔ میں ابھی وہیں تھا کہ مدینہ کے گورنر عمر بن عبدالعزیز بھی آگئے۔ ان کے حکم پر کوٹھڑی کو ایک بڑے کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا۔
علی الصبح مستری بلایا گیا۔ اور اسے کوٹھڑی کے اندر جانے کو کہا گیا۔ مستری نے کہا کہ اس کیساتھ کوئی اور شخص بھی چلے۔ گورنر مدینہ چلنے کیلئے کھڑے ہوگئے۔ (حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پوتے) قاسم بن محمد بن ابوبکر اور (حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پوتے) سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم بھی تیار ہوگئے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے جب یہ دیکھا تو کہا کہ ہمیں اس مقدس مقام کے مکینوں کے سکون میں خلل ڈالنے سے اجتناب کرنا چاہیے انہوں نے صرف اپنے آزاد کردہ غلام مزاحم کو اندر جانے کی ہدایت کی جس نے بعد میں بتایا کہ پہلی قبر دوسری چیزوں کے مقابلے میں تھوڑی سی اونچی تھی۔‘‘ اس واقعہ سے تقریباً 35 برس قبل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ‘ کے یہی پوتے اپنی پھوپھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں ان کی اجازت سے یہ تینوں قبریں دیکھ چکے تھے ان کے بیان کے مطابق یہ قبریں نہ تو سطح زمین سے بہت بلند تھیں اور نہ سطح زمین سے لگی ہوئی تھیں۔ تینوں قبروں پر سرخ رنگ کی مٹی تھی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے دور کے ایک اور ہم عصر کا بیان ہے کہ اس نے حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے زمانے میںیہ تینوں قبریں دیکھیں جو سطح زمین سے تقریباً چار انچ اوپر تھیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کے گرد جو چار دیواری بنوائی اسمیں ایسے ہی سیاہ پتھر استعمال کئے ہیں جیسے کعبہ اللہ کی دیواروں میں نصب ہیں۔ اس بات کی تصدیق سینکڑوں برس بعد۔ ان لوگوں نے کی جنہوں نے صدیوں بعد ہونے والی مرمت کے دوران اس مہر بند کمرے کو دیکھا۔ اس چار دیواری کے گرد حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے جو پانچ پہلوئوں والی دیوار کھنچوائی تھی۔ اس میں پانچ پہلو رکھنے کی مصلحت یہ تھی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری آرام گاہ۔ کا طرز تعمیر اللہ کے گھر سے مختلف رہے۔ جو مستطیل یعنی چار پہلوئوں پر مشتمل ہے۔ پانچ پہلوئوں والی اس بیرونی دیوار کا نقشہ کچھ اس طرح ہے کہ جب آپ اس مقام پر کھڑے ہوں جہاں گول دائرے بنے ہوئے ہیں۔ اور جس کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے دو خلفاء آرام فرما ہیں۔ تو سبز جالیوں کے بیچ میں ہے جو آپ کو نظر آتا ہے۔ وہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی بنوائی ہوئی اس بیرونی دیوار کا جنوبی حصہ ہے جو خط مستقیم کی طرح ہے۔ اگر آپ کو سبز جالیوں کے اندر جھانکنے کا موقع ملے تو آپ کو عربی تحریروں سے مزین سبز کپڑا نظر آئے گا یہ سبز غلاف ہے۔ جو عمر بن عبدالعزیز ؒکی بنوائی ہوئی اس بیرونی دیوار کے جنوبی حصے پر چڑھا ہوا ہے۔ یہ دیوار خط مستقیم ہے شمال میں کوئی بیرونی دیوار نہیں ہے بلکہ اس سے مشرق اور مغرب سے آنے والی بیرونی دیواریں وتر کے زاویے بنائے ہوئے آکر مل جاتی ہیں۔ مشرق اور مغرب کی سمت کی بیرونی دیواریں دو دو حصوں پر مشتمل ہیں۔ ایک حصہ خط مستقیم میں اور دوسرا وتر کا زاویہ لئے ہوئے ہے۔ اس طرح جنوب کی سمت ایک دیوار ہے۔ مشرق کی طرف دو دیواریں، مغرب کی طرف دو زاویوں اور اس طرح پانچ دیواریں بن جاتی ہیں۔ 881 ہجری (مطابق  1676 ء) میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے حجرے کی چار دیواری اور حضرت عمر بن عبدالعزیز کی تعمیر کردہ پانچ پہلوئوں والی دیوار دونوں کو مرمت کی ضرورت پڑ گئی۔ علامہ سہمووی نے اس مرمت میں رضاکارانہ طور پر حصہ لیا تھا۔ وہ بتاتے ہیں۔ ’’چودہ شعبان 881 ہجری کو پانچ پہلوئوں والی دیوار کو مکمل طور پر گرانا پڑا اسے گرا چکے تو دیکھا کہ اندرونی چار دیواری میں بھی دراڑیں پڑی ہوئی ہیں۔ چنانچہ اندرونی چار دیواری بھی مکمل طور پر گرانا پڑی۔ اب مقدس حجرہ ہماری آنکھوں کے سامنے تھا۔ میں شمال کی جانب۔ (قبلہ کے مقابل کی سمت) سے اندر داخل ہوا تو خوشبو کی ایسی لپٹ آئی جو زندگی میں کبھی محسوس نہ کی تھی۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دونوں خلفاء کی خدمت میں ادب سے سلام عرض کیا۔ مقدس حجرہ مربع شکل کا تھا۔ اور اس کی چار یواری کی تعمیر سیاہ رنگ کے پتھروں سے ہوئی تھی۔ جیسے کعبہ کی دیواروں میں استعمال ہوئے ہیں۔ اس چار دیواری میں کوئی دروازہ نہ تھا۔ میری پوری توجہ تین قبروں پر مرکوز تھی۔ تینوں قبریں سطح زمین کے تقریباً برابر تھیں۔ صرف ایک قبر سطح زمین سے تھوڑی سی بلند تھی۔ یہ غالباً حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی قبر تھی قبروں پر عام مٹی پڑی ہوئی تھی۔ میں کام میں مشغول ہوگیا مرمت میں ہاتھ بٹاتا رہا۔ جو تین ہفتے میں سات شوال کو مکمل ہوگیا۔‘‘ اس بات کو سوا پانچ صدیاں بیت چکی ہیں ان پانچ صدیوں میں اس کے بعد کوئی شخص اس مہر بند چار دیواری میں داخل نہیں ہوا۔ مذکورہ مزارکی فوٹو دراصل حضرت مولانا جلال الدین رومیؔ رحمتہ اللہ علیہ کے مزار کی تصویر ہے۔ چنانچہ ہفت روزہ ’’ضرب اسلام‘‘ کراچی بابت۔21 ربیع الثانی 1425 ھ بمطابق 10 جون 2004 جلد نمبر 34 میں جناب افتخار احمد حافظ قادری کا مراسلہ بمعہ مزارکی فوٹو کے شائع ہوا ہے۔ لکھتے ہیں۔ ’’ایک بلند اور طویل چبوترے پر یہ مقام حضرت مولانا جلال الدین رومیؔ رحمتہ اللہ علیہ کا مزار مبارک ہے جو ترکی کے ایک خوبصورت شہر ’’قونیہ شریف‘‘ میں واقع ہے۔ تصویر میں آپ کے پائنتی آپ کے والد محترم کی قبر مبارک اور ساتھ فانوسوں کے نیچے تین اور قبور مبارکہ کے بھی کچھ حصے نظر آرہے ہیں۔ اس کے علاوہ مولانا رومؒ کے خلفاء اور عزیز و اقارب کی قبور بھی اسی چبوترہ پر ہیں۔ الحمد اللہ۔ اس بندہ ناچیز کو نومبر 1995 ء میں اس عظیم مقام پر حاضری کا شرف اور مثنوی شریف پڑھنے کی سعادت حاصل ہو چکی ہے۔بغیر تحقیق کئے آجکل تصویر مذکورہ کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر انور سے منسوب کیا جارہا ہے۔ جو کسی طرح ایک گناہ سے کم نہیں۔ حالانکہ ایک طویل عرصہ سے کسی ظاہری آنکھ کی بھی اس مقام تک رسائی نہیں ہوئی۔ تو اب اتنی جدید تصویر کا حصول کس طرح ممکن ہوا۔ اور پھر سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مبارکہ میں صرف تین قبور ہیں۔ جبکہ تصویر مذکورہ میں تین سے زائد قبور تو سامنے نظر آرہی ہیں۔‘‘ قارئین کرام ایک بات اور نوٹ کریں کہ مذکورہ فوٹو میں تمام قبور پختہ بنی ہوئی ہیں جبکہ ہم گذشتہ سطور میں پڑھ چکے ہیں۔ تینوں قبور کچی ہیں اور ان پر عام مٹی پڑی ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں عرض ہے کہ صرف عقیدت کے ہاتھوں بلا تحقیق کسی بات کو من و عن تسلیم نہیں کرنا چاہیے۔ آج کچھ حضرات انجانے میں صرف عقیدت و محبت کی خاطر مذکورہ فوٹو مختلف جگہوں اور کتابوں کے ٹائٹل وغیرہ پر چھاپ رہے ہیں آئندہ کیلئے اجتناب کریں اور جہاں کہیں دیکھیں ان حضرات کو بھی منع کریں۔
POSTED BY:

Share this

Previous
Next Post »