حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ🍁🍁🍁



تاریخ عالم میں بہت کم شخصیات ایسی ملتی ہیں جن کی ذات میں اس قدر صلاحیتیں اور خوبیاں ایک ساتھ ہوں کہ ایک طرف فتوحات اور نظام حکومت میں مساوات، عدل و انصاف، مذہبی رواداری اپنی انتہاء پر ہو اور دوسری طرف روحانیت، زہد و ورع، تقویٰ اور بصیرت بھی اپنے پورے کمال پر نظر آئے۔ تاریخ میں اس حوالے سے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کوئی ثانی نظر نہیں آتا، عدل و انصاف کی بات ہو تو آپؓ اپنے عملی کردار کی وجہ سے منفرد و ممتاز نظر آتے ہیں۔

خلافت راشدہ کے دوسر ے تاجدار اسلامی تاریخ کی اولوالعزم، عبقری شخصیت ،خُسر رسول ۖ داماد علی المرتضیٰ ، رسالت کے انتہائی قریبی رفیق ، خلافت اسلامیہ کے تاجدار ثانی نے ہجرت نبوی کے کچھ عرصہ بعد بیس افراد کے ساتھ علانیہ مدینہ کو ہجرت کی ، آپؓ نے تمام غزوات میں حصہ لیا۔634ء میں خلافت کے منصب پہ فائزکیے گئے۔644ء تک اس عہدہ پر کام کیا۔

حضرت عمر فاروق ؓ کا قبول اسلام

اس میں شک نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قبول اسلام حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کا نتیجہ ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذات میں بے شمار صلاحیتیں، سیاسی و انتظامی بصیرت اور عدالت و صداقت ودیعت کر رکھی تھیں،

حضرت عمر بن خطابؓ وہ خلیفہ ہیں جنہیں اپنی مرضی سے نہ بولنے والے پیغمبر خداۖ نے غلاف کعبہ پکڑ کر دُعا مانگی تھی اے اللہ مجھے عمر بن خطاب عطا فرما دے یا عمرو بن ہشام، دعائے رسول کے بعد عمر بن خطاب تلوار گردن میں لٹکائے ہاتھ بندھے سیدھے دروازہ رسولﷺ پر پہنچے صحابہ کرام نے جب یہ آنے کی کیفیت دیکھی تو بارگاہ رسالت میں دست بستہ عرض کی یا رسول اللہ ۖ عمر اس حالت میں آ رہے ہیں تو آپ نے فرمایا انہیں آنے دو ۔نیّت اچھی تو بہتر ورنہ اسی تلوار سے اس کا سر قلم کردیا جائے گا۔

جب بارگاہ رسالت میں عمر بن خطاب حاضر ہوئے دست رسول ۖ پر بیعت کر کے کلمہ طیبہ پڑھا تو فلک شگاف نعروں سے نعرہ تکبیر کی صدائیں بلند ہوئیں تو ہر طرف بخِِ بخِِ کی صدائیں گونجیں جس عمر بن خطاب کے آنے پر اتنی خوشیاں منائی گئیں جس کے رُعب اور دب دبہ سے دشمنان اسلام اس قدر حواس باختہ ہوتے تھے کہ بے شک یہ مرد قلندر کھلے آسمان تلے تن تنہا تلوار اور کوڑا لٹکا کر آرام کر رہا ہوتا تھا مگر کسی کو یہ جرأ ت نہ ہوتی تھی کہ عمر بن خطاب کا کوڑا یا تلوار اُٹھاتا ۔

اسی بناء پر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ عمر کی زبان اور قلب کو اللہ تعالیٰ نے صداقت کا مصدر بنادیا ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وجود مسعود سے اسلام کی شان و عظمت کو قیصر و کسریٰ کے ایوانوں تک پہنچادیا۔

لقب فاروق کیسے ملا

فاروق کا مطلب ہے کہ ’فرق کرنے واالا ‘، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کفر و نفاق کے مقابلہ میں بہت جلال والے تھے اور کفار و منافقین سے شدید نفرت رکھتے تھے۔ ایک دفعہ ایک یہودی و منافق کے مابین حضور انورﷺ نے یہودی کے حق میں فیصلہ فرمایا مگر منافق نہ مانا اور آپؓ سے فیصلہ کے لیے کہا ۔ آپؓ کو جب علم ہوا کہ نبیﷺ کے فیصلہ کے بعد یہ آپ سے فیصلہ کروانے آیا ہے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس کو قتل کر کے فرمایا جو میرے نبیﷺ کا فیصلہ نہیں مانتا میرے لیے اس کا یہی فیصلہ ہے۔کئی مواقع پر حضور نبی کریمﷺ کے مشورہ مانگنے پر جو مشورہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے دیا قرآن کریم کی آیات مبارکہ اس کی تائید میں نازل ہوئیں۔ اور آپؓ کو فاروق کا لقب ملا ۔

حضرت عمر فاروقؓ دوسرے خلیفہ راشد ہیں ، نبی اکرم ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بعد آپؓ کا رتبہ سب سے بلند ہے، آپؓ کے بارے میں رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:

میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا (ترمذی ) ۔

عمر کی زبان پر خدا نے حق جاری کر دیا ہے (بیہقی)۔

جس راستے سے عمر گزرتا ہے شیطان وہ راستہ چھوڑدیتا ہے (بخاری ومسلم)۔

میرے بعد ابوبکر وعمر کی اقتداء کرنا( مشکٰوۃ)۔

دور خلافت

آپ کے دور خلافت میں اسلامی سلطنت کی حدود 22لاکھ مربع میل تک پھیلی ہوئی تھیں آپ کے اندازِحکمرانی کودیکھ کر ایک غیر مسلم یہ کہنے پہ مجبور ہوگیاکہ

اگر عمر کو 10سال خلافت کے اور ملتے تو دنیا سے کفر کانام ونشان مٹ جاتا

حضرت عمر کازمانہ خلافت اسلامی فتوحات کا دور تھا۔اس میں دو بڑی طاقتوں ایران وروم کو شکست دے کرایران عراق اور شام کو اسلامی سلطنتوں میں شامل کیا، بیت المقدس کی فتح کے بعدآپ خودوہاں تشریف لے گئے۔

قبول اسلام کے بعد عہد نبوت میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سرکار دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نہ صرف قرب حاصل ہوا بلکہ تمام معاملات میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مشاورت کو اہمیت حاصل تھی۔ غزوات ہوں یا حکومتی معاملات، سب میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مشورہ لیا جاتا تھا۔

حضرت عمر فاروقؓ کا مشہور قول ہے کہ

اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کُتا بھی پیاسا مر گیا تو عمر سے پوچھا جائے گا

اس قدر خوف خدا رکھنے والا راتوں کو جاگ کر رعایا کی خدمت اور جس کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کی تائید میں سورئہ نور کی آیات مبارکہ کا نازل ہونا جس نے اپنی آمد پر مدینہ کی گلیوں میں اعلان کیا، کوئی ہے جس نے بچوں کو یتیم کرانا ہو ، بیوی کو بیوہ کرانا ہو ، ماں باپ کی کمر جھکانا ہو ، آنکھوں کا نورگُم کرانا ہو ،آئے عمر نے محمد رسول اللہ ۖ کی غلامی کا دعویٰ کر لیا ہے آج سے اعلانیہ اذان اور نماز ہوا کرے گی ۔

حضرت عمر کے دور میں فتح کئے گئے علاقے

حضرت عمر فاروق ؓ کے دور حکومت میں جن ملکوں اور علاقوں کو فتح کیا گیا ان میں عراق، شام، دمشق، حمس، یرموک، بیت المقدس، کساریہ، تکریت ، خوزستان، آذر بائیجان، تبرستان ، آرمینیہ، فارس، کرمان، سیستان، مکران ،خراسان، مصر، سکندریہ سمیت دیگر علاقوں کو فتح کیا اور اسلام کا پرچم سربلند کیا ۔

حضرت عمر ؓ کے دور میں قائم ہونے والے محکمے

محکمہ فوج، پولیس، ڈاک، بیت المال، محاصل، جیل، زراعت، آبپاشی اور تعلیم کے محکمہ جات کا قیام آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ہوا۔ اس سے پیشتر یہ محکمے موجود نہ تھے۔ ان محکموں کے قیام سے یکسر نظام خلافت، نظام حکومت میں بدل گیا تمام محکموں کے افسران اور ملازمین کی تنخواہیں مقرر کی گئیں۔

۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سب سے  پہلے امیرالمومنین کہہ کر پکارے گئے۔

۔ آپؓ نے بیت المال کا شعبہ فعال  کیا، مکاتب و مدارس کا قیام اور اساتذہ کی تنخواہیں

۔ اسلامی مملکت کو صوبوں اور ضلعوں میں  تقسیم کیا عشرہ خراج کا نظام نافذ کیا ۔

۔ مردم شماری کی بنیاد ڈالی، محکمہ عدالت اور قاضیوں کے لئے خطیر تنخواہیں متعین کیں۔

۔ احداث یعنی پولیس کا محکمہ قائم کیا،  جیل خانہ وضع کیا اورجلاوطنی کی سزا متعارف کی۔

۔ باقاعدہ فوج اور پولیس کے ملازمین بھرتی کئے گئے، سن ہجری جاری کیا، محصول اور لگان،

۔ زراعت کے فروغ کے لئے نہریں کھدوائیں، نہری اور زرعی نظام کو جدید تقاضوں میں ترتیب دیا گیا

۔ باقاعدہ حساب کتاب کے لئے مختلف شعبوں کا سربراہ مقرر کیا

۔ حرم اور مسجد نبوی کی توسیع، باجماعت نماز تراویح، فجر کی اذان میں الصلوٰۃ خیر من النوم کا اضافہ۔

۔ تمام محکمہ جات کے لئے دفاتر کا قیام، نئے شہروں اور صوبوں کا قیام

۔ تجارتی گھوڑوں پر زکوٰۃ کا اجراء۔ جہاد کے لئے باقاعدہ گھوڑوں کی پرورش کا اہتمام

۔ حربی تاجروں کو تجارت کی اجازت، مفلوک الحال، یہودیوں اور عیسائیوں کے لئے وظائف

۔ مکہ اور مدینہ کے درمیان مسافروں کے آرام کے لئے سرائیں اور چوکیوں کا قیام، بچوں کے وظائف،

قیاس کا اصول رائج کیا، فرائض میں عدل کا مسئلہ ایجاد کیا

۔ امام اور موذن کی تنخواہ مقرر کی، مساجد میں وعظ کا طریقہ جاری کیا

شہادت 

اسلام کے اس عظیم سپوت کی فتوحات سے اہل باطل اتنے گھبرائے کے سازشوں کا جال بچھا دیا اور ستائیس ذی الحجہ کو ایک ایرانی مجوسی ابولولو فیروز نے نمازِ فجر کی ادائیگی کے دوران حضرت عمررضی اللہ عنہ کو خنجر مار کر شدید زخمی کر دیا۔

یکم محرم الحرام 23 ہجری کو امام عدل و حریت ، خلیفہ راشد،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کا ثمر، امیر المومنین ، فاتح عرب وعجم، مدینہ منورہ میں تریسٹھ سال کی عمر میں شہادت کے رتبے پرفائز ہوئے، آپ روضہ رسولﷺ میں انحضرتﷺ کے پہلو مبارک میں مدفن ہیں۔

 وہ عمر جس کے ا عداء پہ شیدا سقر

 اس خدا دوست حضرت پہ لاکھو ں سلام

حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ کے دور میں ایک بدو آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے ملنے مدینے کو چلا، جب مدینے کے پاس پہنچا تو آدھی رات کا وقت ہو چکا تھا ساتھ میں حاملہ بیوی تھی تو اس نے مدینے کی حدود کے پاس ہی خیمہ لگا لیا اور صبح ہونے کا انتظار کرنے لگا، بیوی کا وقت قریب تھا تو وہ درد سے کراہنے لگی، حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اپنے روز کے گشت پر تھے اور ساتھ میں ایک غلام تھا، جب آپ نے دیکھا کے دور شہر کی حدود کے پاس آگ جل رہی ہے اور خیمہ لگا ہوا ہے تو آپ نے غلام کو بھیجا کہ پتہ کرو کون ہے

جب پوچھا تو اس نے ڈانٹ دیا کہ تمہیں کیوں بتاؤں، آپ گئے اور پوچھا تو بھی نہیں بتایا آپ نے کہا کہ اندر سے کراہنے کی آواز آتی ہے کوئی درد سے چیخ رہا ہے بتاؤ بات کیا ہے تو اس نے بتایا کہ میں امیر المومنین حضرت عمر فاروق سے ملنے مدینہ آیا ہوں میں غریب ہوں اور صبح مل کے چلا جاؤں گا، رات زیادہ ہے تو خیمہ لگایا ہے اور صبح ہونے کا انتظار کر رہا ہوں، بیوی امید سے ہے اور وقت قریب آن پہنچا ہے تو آپ جلدی سے پلٹ کر جانے لگے کہ ٹھہرو میں آتا ہوں، آپ اپنے گھر گئے اور فوراً اپنی زوجہ سے مخاطب ہوئے کہا کہ اگر تمہیں بہت بڑا اجر مل رہا ہو تو لے لو گی زوجہ نے کہا کیوں نہیں تو آپ نے کہا چلو میرے دوست کی بیوی حاملہ ہے،وقت قریب ہے چلو اور جو سامان پکڑنا ہے ساتھ پکڑ لو،

آپ کی بیوی نے گھی اور دانے پکڑ لئے اور آپ کو لکڑیاں پکڑنے کا کہا آپ نے لکڑیاں اپنے اوپر لاد لیں،،، سبحان اللہ ۔۔۔ (یہ کوئی کونسلر، ناظم ، ایم پی اے یا ایم این اے نہیں یہ اس کا ذکر ہو رہا ہے دوستو جو کہ 22 لاکھ مربع میل کا حکمران ہے جس کے قوانین آج بھی چلتے ہیں جو عمر فاروق ہے ) جب وہ لوگ وہاں پہنچے تو فوراً کام میں لگ گئے بدو ایسے حکم چلاتا جیسے آپ شہر کے کوئی چوکی دار یا غلام ہیں،، کبھی پانی مانگتا تو آپ دوڑے دوڑے پانی دیتے کبھی پریشانی میں پوچھتا کہ تیری بیوی کو یہ کام آتا بھی ہے تو آپ جواب دیتے،، جبکہ اس کو کیا پتہ کہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق خود ہیں،

جب اندر بچے کی ولادت ہوئی تو آپ کی زوجہ نے آواز لگائی یا امیر المومنین بیٹا ہوا ہے تو یا امیر المومنین کی صدا سن کر اس بدو کی تو جیسے پاؤں تلے زمین نکل گئی اور بے اختیار پوچھنے لگا کیا آپ ہی عمر قاروق امیر المومنین ہیں ؟؟ آپ عمر ہیں ؟ وہی جس کے نام سے قیصر و کسریٰ کانپے آپ وہ ہیں وہی والے عمر ہیں جس کے بارے میں حضرت علی نے کہا کہ آپ کے لئے دعا کرتا ہوں اور جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا مانگ کر اسلام کے لئے مانگا وہی والے نا؟؟

آپ نے کہا ہاں ہاں میں ہی ہوں اس نے کہا کہ ایک غریب کی بیوی کے کام کاج میں آپ کی بیوی،خاتون اول لگی ہوئی ہے اور دھوئیں کے پاس آپ نے اپنی داڑھی لپیٹ لی اور میری خدمت کرتے رہے؟ تو سیدنا عمر رو پڑے اس بدو کو گلے سے لگایا اور کہا تجھے پتا نہیں توں کہا آیا ہے ؟ ؟ یہ مدینہ ہے میرے آقا کا مدینہ یہاں امیروں کے نہیں غریبوں کے استقبال ہوتے ہیں، غریبوں کو عزتیں ملتی ہیں، مزدور اور یتیم بھی سر اٹھا کر چلتے ہیں !!

سبحان اللہ

حضرت عمر فاروقؓ کو ایک شخص کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ ماں کو گالیاں دیتا ھے۔

آپ نے اس شخص کو بلوایا اور حکم دیا کہ پانی سے بھری ھو مشک لائی جائے ،، پھر وہ مشک اس کے پیٹ پر خوب کس کر بندھوا دی 

اور اس کو کہا کہ اسے اسی مشک کے ساتھ چلنا پھرنا بھی ھے اور کھانا پینا بھی ھے اور سونا جاگنا بھی ھے۔

ایک دن گزرا تو وہ بندہ بلبلاتا ھوا حاضر ھوا کہ اس کو معاف کر دیا جائے وہ آئندہ ایسی حرکت نہیں کرے گا۔ 

آپؓ نے پانی آدھا کر دیا 

مگر مشک بدستور اس کے پیٹ پر بندھی رھنے دی۔ مزید ایک دن کے بعد وہ بندہ ماں کو بھی سفارشی بنا کر ساتھ لے آیا کہ اس کو معاف کر دیا جائے اور اس مشک کو ھٹا دیا جائے وہ دو دن سے نہ تو سو سکا ھے اور نہ ھی ٹھیک سے کھا سکا ھے۔

آپ نے اس کی ماں کی طرف 

اشارہ کر کے فرمایا 

کہ اس نے تجھے پیٹ کے باھر نہیں بلکہ پیٹ کے اندر اتنے ھی وزن کے ساتھ 9 ماہ اٹھا کر رکھا ھے۔ 

نہ وہ ٹھیک سے سو سکتی تھی اور نہ ٹھیک سے کھا سکتی تھی ،پھر تو اسے موت کی سی اذیت دے کر پیدا ھوا اور 2 سال اس کا دودھ پیتا رھا ، 

اور جب اپنے پاؤں پر کھڑا ھوا تو اس کا شکر ادا کرنے کی بجائے اس کے لئے تیرے منہ سے گالیاں نکلتی ھیں ،، اگر آئندہ یہ شکایت موصول ھوئی تو تجھے نشانِ عبرت بنا دونگا۔

(فتاوی و اقضیتہ عمر ابن الخطاب)

🍁#ﺣﻀﺮﺕ_سیدنا_ﻋﻤﺮ_ﻓﺎﺭﻭﻕ_ﺭﺿﯽ_ﺍﻟﻠﮧ_ﻋﻨﮧ🍁

 ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﺍﯾﺴﮯ ﺳﺴﭩﻢ ﺩﯾﮯ ﺟﻮ ﺍٓﺝ ﺗﮏ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺭﺍﺋﺞ ﮨﯿﮟ :

ﺳﻦ ﮨﺠﺮﯼ ﮐﺎ ﺍﺟﺮﺍ ﮐﯿﺎ۔

ﺟﯿﻞ ﮐﺎ ﺗﺼﻮﺭ ﺩﯾﺎ۔

ﻣﻮٔﺫﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻨﺨﻮﺍﮨﯿﮟ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﯿﮟ

ﻣﺴﺠﺪﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮐﺎ ﺑﻨﺪﻭﺑﺴﺖ ﮐﺮﺍﯾﺎ.

پولیس ﮐﺎ ﻣﺤﮑﻤﮧ ﺑﻨﺎﯾﺎ۔

ﺍﯾﮏ ﻣﮑﻤﻞ ﻋﺪﺍﻟﺘﯽ ﻧﻈﺎﻡ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﺭﮐﮭﯽ۔

ﺍٓﺏ ﭘﺎﺷﯽ ﮐﺎ ﻧﻈﺎﻡ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﺮﺍﯾﺎ۔

ﻓﻮﺟﯽ ﭼﮭﺎﻭٔﻧﯿﺎﮞ ﺑﻨﻮﺍﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻓﻮﺝ ﮐﺎ ﺑﺎﻗﺎﻋﺪﮦ ﻣﺤﮑﻤﮧ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﯿﺎ۔

ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺩﻭﺩﮪ ﭘﯿﺘﮯ ﺑﭽﻮﮞ، ﻣﻌﺬﻭﺭﻭﮞ، ﺑﯿﻮﺍﻭٔﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﺍٓﺳﺮﺍﻭٔﮞ ﮐﮯ ﻭﻇﺎﺋﻒ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﯿﮯ۔

ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺣﮑﻤﺮﺍﻧﻮﮞ، ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻋﮩﺪﯾﺪﺍﺭﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﻟﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﺛﺎﺛﮯ ﮈﮐﻠﯿﺌﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎﺗﺼﻮﺭ ﺩﯾﺎ۔

ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺑﮯ ﺍﻧﺼﺎﻓﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺟﺠﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﺰﺍ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﺎ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺑﮭﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ

ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﮐﻼﺱ ﮐﯽ ﺍﮐﺎﻭٔﻧﭩﺒﻠﭩﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯽ۔

ﺍٓﭖ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺗﺠﺎﺭﺗﯽ ﻗﺎﻓﻠﻮﮞ ﮐﯽ ﭼﻮﮐﯿﺪﺍﺭﯼ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔

ﺍٓﭖ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﻋﺪﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﻭﮦ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮯ ﺧﻮﻑ ﺳﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﻓﺮﻣﺎﻥ ﺗﮭﺎ کہ :

’’ﻗﻮﻡ ﮐﺎ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﻗﻮﻡ ﮐﺎ ﺳﭽﺎ ﺧﺎﺩﻡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔‘‘

ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﻣﮩﺮ ﭘﺮ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ

’’ﻋﻤﺮ ! ﻧﺼﯿﺤﺖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﻮﺕ ﮨﯽ ﮐﺎﻓﯽ ﮨﮯ‘‘

ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﺩﺳﺘﺮﺧﻮﺍﻥ ﭘﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺩﻭ ﺳﺎﻟﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﮯ ﮔﺌﮯ۔

ﺍٓﭖ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺳﺮ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺍﯾﻨﭧ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺳﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔

ﺍٓﭖ ﺳﻔﺮ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺟﮩﺎﮞ ﻧﯿﻨﺪ ﺍٓﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ، ﺍٓﭖ ﮐﺴﯽ ﺩﺭﺧﺖ ﭘﺮ ﭼﺎﺩﺭ ﺗﺎﻥ ﮐﺮ ﺳﺎﯾﮧ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﻧﻨﮕﯽ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺩﺭﺍﺯ ﮨﻮﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔

ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﮐﺮﺗﮯ ﭘﺮ 14ﭘﯿﻮﻧﺪ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﭘﯿﻮﻧﺪﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺳﺮﺥ ﭼﻤﮍﮮ ﮐﺎ ﭘﯿﻮﻧﺪ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ۔ ﺍٓﭖ ﻣﻮﭨﺎ ﮐﮭﺮﺩﺭﺍ ﮐﭙﮍﺍ ﭘﮩﻨﺘﮯ

ﺗﮭﮯ۔ ﺍٓﭖ ﮐﻮ ﻧﺮﻡ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺭﯾﮏ ﮐﭙﮍﮮ ﺳﮯ ﻧﻔﺮﺕ ﺗﮭﯽ۔

ﺍٓﭖ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺟﺐ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻋﮩﺪﮮ ﭘﺮ ﻓﺎﺋﺰ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺛﺎﺛﻮﮞ ﮐﺎ ﺗﺨﻤﯿﻨﮧ ﻟﮕﻮﺍ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎﺱ ﺭﮐﮫ ﻟﯿﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻋﮩﺪﮮ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺛﺎﺛﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﺗﻮ ﺍٓﭖ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﮐﺎﻭٔﻧﭩﺒﻠﭩﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔

ﺍٓﭖ ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﮔﻮﺭﻧﺮ ﺑﻨﺎﺗﮯ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﮐﺒﮭﯽ ﺗﺮﮐﯽ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﭘﺮ ﻧﮧ ﺑﯿﭩﮭﻨﺎ، ﺑﺎﺭﯾﮏ ﮐﭙﮍﮮ ﻧﮧ ﭘﮩﻨﻨﺎ، ﭼﮭﻨﺎ ﮨﻮﺍ ﺍٓﭨﺎ ﻧﮧ ﮐﮭﺎﻧﺎ، ﺩﺭﺑﺎﻥ ﻧﮧ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﻓﺮﯾﺎﺩﯼ ﭘﺮ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﺑﻨﺪ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ۔

ﺍٓﭖ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﻇﺎﻟﻢ ﮐﻮ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮ ﺩﯾﻨﺎ ﻣﻈﻠﻮﻣﻮﮞ ﭘﺮ ﻇﻠﻢ ﮨﮯ.

ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻓﻘﺮﮦ ﺍٓﺝ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﺣﻘﻮﻕ ﮐﮯ ﭼﺎﺭﭨﺮ ﮐﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ۔ "ﻣﺎﺋﯿﮟ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﺍٓﺯﺍﺩ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ، ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﺐ ﺳﮯ ﻏﻼﻡ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﺎ۔"

ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﮐﺜﺮ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﻮﮞ۔ "ﻋﻤﺮ ﺑﺪﻝ ﮐﯿﺴﮯ ﮔﯿﺎ۔‘‘

ﺍٓﭖ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﺗﮭﮯ، ﺟﻨﮩﯿﮟ ’’ﺍﻣﯿﺮ ﺍﻟﻤﻮﻣﻨﯿﻦ ‘‘ ﮐﺎ ﺧﻄﺎﺏ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ...!


ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺬﺍﮨﺐ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺼﻮﺻﯿﺖ ﮨﮯ ، *ﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺧﺼﻮﺻﯿﺖ ﻋﺪﻝ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ      ﺣﻀﺮﺕ

ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻭﮦ ﺷﺨﺼﯿﺖ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﺱ ﺧﺼﻮﺻﯿﺖ ﭘﺮ ﭘﻮﺭﺍ ﺍﺗﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﻋﺪﻝ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻋﺪﻝ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻋﺪﻝِ ﻓﺎﺭﻭﻗﯽ ﮨﻮﮔﯿﺎ ...!

ﺍٓﭖ ﺷﮩﺎﺩﺕ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﻣﻘﺮﻭﺽ ﺗﮭﮯ، ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﻭﺻﯿﺖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﻭﺍﺣﺪ ﻣﮑﺎﻥ ﺑﯿﭻ ﮐﺮ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﻗﺮﺽ ﺍﺩﺍ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍٓﭖ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﻭﺍﺣﺪ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﻓﺮﺍﺕ ﮐﮯ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺘﺎ ﺑﮭﯽ ﺑﮭﻮﮎ ﺳﮯ ﻣﺮﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺳﺰﺍ ﻋﻤﺮ (ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ) ﮐﻮ ﺑﮭﮕﺘﻨﺎ ﮨﻮﮔﯽ ...!

ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﻋﺪﻝ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺣﺎﻟﺖ ﺗﮭﯽ۔ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﺩﺭﺍﺯ ﻋﻼﻗﮯ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﭼﺮﻭﺍﮨﺎ ﺑﮭﺎﮔﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﺍٓﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﭼﯿﺦ ﮐﺮ ﺑﻮﻻ :

’’ ﻟﻮﮔﻮ ! ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔‘‘

ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺕ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ :

’’ ﺗﻢ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﺳﮯ ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﻣﯿﻞ ﺩﻭﺭ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﮨﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﺎﻧﺤﮯ ﮐﯽ ﺍﻃﻼﻉ ﮐﺲ ﻧﮯ ﺩﯼ۔‘‘

ﭼﺮﻭﺍﮨﺎ ﺑﻮﻻ :

’’ﺟﺐ ﺗﮏ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺯﻧﺪﮦ ﺗﮭﮯ، ﻣﯿﺮﯼ

ﺑﮭﯿﮍﯾﮟ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﺧﻮﻑ ﭘﮭﺮﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﺭﻧﺪﮦ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍٓﻧﮑﮫ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮞﺪﯾﮑﮭﺘﺎ ﺗﮭﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﺍٓﺝ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺍﯾﮏ ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﮭﯿﮍ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﮭﯿﮍﯾﮯ ﮐﯽ ﺟﺮﺍٔﺕ ﺳﮯ ﺟﺎﻥ ﻟﯿﺎ ﮐﮧ ﺍٓﺝ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ۔‘‘

ﻣﯿﮟ نہایت ہی ناقص العقل و کم فہم فرحان بن عبدالرحمان ﺩﻧﯿﺎ ﺑﮭﺮ ﮐﮯ ﻣﻮﺭﺧﯿﻦ ﮐﻮ ﺩﻋﻮﺕ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﻮﮞ، ﻭﮦ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﮐﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﮐﮯ ﺣﻀﻮﺭ ﭘﮩﺎﮌ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﻨﮑﺮ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﮮ ﮔﺎ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﮐﯽ ﺑﻨﺎﺋﯽ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻭﻓﺎﺕ ﮐﮯ 5ﺳﺎﻝ ﺑﻌﺪ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﮔﺌﯽ، ﺟﺐ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ۔ﺟﺲ ﺟﺲ ﺧﻄﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﮭﻨﮉﺍ ﺑﮭﺠﻮﺍﯾﺎ، ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﮐﺒﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﮐﺒﺮ ﮐﯽ ﺻﺪﺍﺋﯿﮟ ﺍٓﺗﯽ ﮨﯿﮟ، ﻭﮨﺎﮞ ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﻟﻮﮒ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺳﺠﺪﮦ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ...!

ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺻﺮﻑ ﮐﺘﺎﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﭧ ﮐﺮ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ، ﺟﺐ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﺑﻨﺎﺋﮯ ﻧﻈﺎﻡ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ 245 ﻣﻤﺎﻟﮏ ﻣﯿﮟ ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﺷﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ ...!

ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﮈﺍﮎ ﺧﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﻂ ﻧﮑﻠﺘﺎ ﮨﮯ، ﭘﻮﻟﯿﺲ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﭙﺎﮨﯽ ﻭﺭﺩﯼ ﭘﮩﻨﺘﺎ ﮨﮯ، ﮐﻮﺋﯽ ﻓﻮﺟﯽ ﺟﻮﺍﻥ 6 ﻣﺎﮦ ﺑﻌﺪ ﭼﮭﭩﯽ ﭘﺮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﺴﯽ ﺑﭽﮯ، ﻣﻌﺬﻭﺭ، ﺑﯿﻮﮦ ﯾﺎ ﺑﮯ ﺍٓﺳﺮﺍ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﻭﻇﯿﻔﮧ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻣﻌﺎﺷﺮﮦ، ﻭﮦ ﺳﻮﺳﺎﺋﭩﯽ، ﺑﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﻮ

ﻋﻈﯿﻢ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ، ﻭﮦ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺳﮑﻨﺪﺭ ﻣﺎﻥ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﮯ، ﻣﺎﺳﻮﺍﺋﮯ ﺍﻥ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﻮ ﺍٓﺝ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮐﻤﺘﺮﯼ ﮐﮯ ﺷﺪﯾﺪ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﻠﻤﮧ ﺗﮏ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ...!

ﻻﮨﻮﺭ ﮐﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰ ﺳﺮﮐﺎﺭ ﮐﻮ ﺩﮬﻤﮑﯽ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ کہ :

’’ ﺍﮔﺮ ﮨﻢ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﭘﮍﮮ ﺗﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﭼﻨﮕﯿﺰ ﺧﺎﻥ ﯾﺎﺩ ﺍٓﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔‘‘

ﺍﺱ ﭘﺮ ﺟﻮﺍﮨﺮ ﻻﻝ ﻧﮩﺮﻭ ﻧﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ کہ :

 ’’ﺍﻓﺴﻮﺱ ﺍٓﺝ ﭼﻨﮕﯿﺰ ﺧﺎﻥ ﮐﯽ ﺩﮬﻤﮑﯽ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﯾﮧ ﺑﮭﻮﻝ۔ﮔﺌﮯ، ﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ (ﺣﻀﺮﺕ) ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ  (ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ) ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ۔‘‘

ﺟﻦ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺘﺸﺮﻗﯿﻦ ﺍﻋﺘﺮﺍﻑ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ :

"ﺍﺳﻼﻡ ﻣﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﺍﯾﮏ ﻋﻤﺮ ﺍﻭﺭ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﺁﺝ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺻﺮﻑ ﺍﺳﻼﻡ ﮨﯽ ﺩﯾﻦ ﮨﻮتا 

دوستوں چلتے، چلتے ہمیشہ کی طرح وہ ہی ایک آخری بات عرض کرتا چلوں کے اگر کبھی کوئی ویڈیو، قول، واقعہ، کہانی یا تحریر وغیرہ اچھی لگا کرئے تو مطالعہ کے بعد مزید تھوڑی سے زحمت فرما کر اپنے دوستوں سے بھی شئیر کر لیا کیجئے، یقین کیجئے کہ اس میں آپ کا بمشکل ایک لمحہ صرف ہو گا لیکن ہو سکتا ہے اس ایک لمحہ کی اٹھائی ہوئی تکلیف سے آپ کی شیئر کردا تحریر ہزاروں لوگوں کے لیے سبق آموز ثابت ہو 🍁

🍁جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء فی الدنیا و الآخرۃ آمین🍁

 ہندو دھرم کے ماننے والوں کیلئے ایک چیلنج

ایلورا کے غاروں میں بُراق کی تصویر

Ellora Cave in Maharashtra INDIA

حیدرآباد دکن میں دولت آباد ضلع میں کئی ہزار سال پرانے ایلورا کے مشہور غار میں جو قدیم ہندو تہذیب کے آئینہ دار ہیں۔ ان میں سولھویں غار میں جسے رنگ محل کہتے ہیں۔ وشنو کے اوتار بنے ہوئے ہیں ۔ ان میں نو (۹) اُتاروں کی تو تصویر بنا دی گئی ہے ۔ مگر دسویں اُتار کی صرف سواری بنائی گئی ہے۔ سواری پر کوئی سوار نہیں بنایا گیا ۔ یہ سواری من وعن رحمۃ اللعَالَمِينَ صَلّی الله عليہ  وسلم کے بُراق کی طرح ہے۔ اسے وہ اِسے وہ " کلکی وہان " یعنی کلکی اوتار کی سواری کہتے ہیں ۔ چونکہ کلکی اوتار کا ظہور ان کے نزدیک ابھی نہیں ہوا ہے اسلئے کلکی وہان پر کلکی اوتار کی مورتی نہیں بنائی گئی دراصل ان کی کتابوں میں حضور منبع انوار صلی اللہ علیہ وسلم کو کلکی اوتار کہا گیا ہے۔ جس کے معنی ہیں ۔ " بت شکن" یعنی " ما حي الأوتان وَالأَصْنَامِ " کلکی اوتار کی یہ سواری ، عالم کشف میں اُن کے بزرگوں نے دیکھی اور کلکی وہان“ کے نام سے اُسے مصور 
کر لیا۔
Name Tital The HINDU

چنائی (مدراس) سے ایک انتہائی متعصب انگریزی روزنامہ THE HINDU سالہا سال سے شائع ہے۔ اس
 کے سر ورق پر درج بالا مونو گرام شائع ہوتا ہے۔ اس میں بائیں طرف کلکی وہان (براق ) دائیں طرف ہاتھی ، اور درمیان میں ہندوستان کے نقشہ میں شنکھ( پھونکنے کا نرسنگھا، ناقوس ،صور ) اور پس منظر میں اُبھرتا ہوا سورج دکھایا گیا ہے۔ 

لطف یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں حرم نبوی صلی الله علیہ وَسَلَّم حضور کی پائینتی مبارک کی طرف باب جبریل کی بائیں جانب جو درمیانی کھڑکی ہے۔ اس پر بھی سنہرے رنگ میں اسی طرح اُبھرتے ہوئے سورج کے اندر درود شریف لکھا ہوا ہے۔ منبر نبوی کے قریب سے ریاض الجنہ سے قبلہ رخ جانے کے لئے جو کمانی دار دروازہ بنا ہوا ہے۔ اُس پر بھی اُبھرتے ہوئے سورج کی کرنیں دکھائی گئی ہیں۔ ان سب حقائق کو یکجا کر کے غور کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے۔ کہ HINDO (ہندو) اخبار کی پیشانی پر دراصل ہندوستان کے مسلمان ہونے کی مُہر ثبت ہے۔ ہاتھی انکے یہاں حکومت کا نشان ہے۔ اُبھرتا ہوا سورج سراجاً منيراً  حضور ﷺ کی شانِ قدسی ہے۔ جسے اُن کے یہاں سوریئے نارائن( چمکتا ہوا سورج ) کہا گیا ہے۔ ہندو کا سرورق ، زبان حال سے اس حقیقت کی ترجمانی کر رہا ہے۔ کہ براق کے سوار کی حکومت ( جس کی طرف ہاتھی سے اشارہ کیا گیا ہے)ہندوستان میں قائم ہوگی اور بھارت کی سرزمین سراجاً منيراً  کے لائے ہوئے دین منیر سے جگمگااُٹھے گی اور لا اله الااللہ  محمد رسول الله کانورانی صور سارے ظلمت کدہ ہند میں پھونک دیا جائے گا ۔ 
شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ خورشید سے 
یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے
  THE HINDU کا اس مونو گرام کو سر ورق پر چھاپنا اور اس حقیقت سے بے خبر رہنا دیکھ کر سوائے اس کے اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ۔ 
یہ کا فر کتنے ظالم ہیں، کیا دھوکا کھائے بیٹھے ہیں
 اس ذات سے نفرت ہے ، جسکو سینے لگائے بیٹھے ہیں
  کیا یہ ہمارا فرض منصبی نہیں ہے کہ ہم ان ظالموں کو اس حقیقت کا عرفان دیگر انہیںرحمۃ اللعالین صَلی اللہ عَلَيْہِ وَسَلَّم کے دامانِ رحمت میں آنے کی دعوت دیں۔ اللہ کی دی ہوئی حکومت کا منشاہی امر بالمعروف ( نیکی کا حکم دینا ) اور نھي عَنِ الْمُنكَرِ (برائی سے روکنا ہے )
 تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا 
ور نہ گلشن میں علاج ِتنگی داماں بھی ہے

ماہنامہ سبیل ہدایت لاہور بابت اپریل 2004 ء 


 

 عبدالّرحمٰن جِنّ

ایک حیرت انگیز داستان
Sahabi Jinn Abdul Rahman

سیّد قمر احمد سبزواریؔ

یہ اس خطہ زمین کی داستان ہے جو نامور مغل بادشاہ شاہجہاں نے بطور جاگیر حضرت مُلّاعبدالحکیم رحمتہ اللہ علیہ سیالکوٹی کو دیا تھا آپ کے مزار کے اردگرد اب جدید طرز کے مکانات اور پلازے تعمیر ہو چکے ہیں تاہم وہ قدیم قبرستان اب بھی وہاں موجود ہے جو پرانے وقتوں سے چلا آرہا ہے۔
مبارکپورہ سیالکوٹ سے حضر ت مُلّا عبدالحکیمؒ کے مزار کا فاصلہ صرف چند گز پر مشتمل ہے ۔
محترم احسان صابری قریشیؒ شہر اقبال کی ایسی معروف اور دُرویش صفت شخصیت ہو گزری ہے جن کی اولیائے کرامؒ کے مزارات پر حاضری ان کے پرانے معمولات میں شامل تھی کسی زمانہ میں ان کا معمول تھا کہ ہر ماہ کی پہلی جمعرات حضرت سیدنا امام علی الحق چشتیؒ (جو مسعود الدین گنج شکرؒ) کے خلیفہ مجاز تھے کے مزار پر دوسری جمعرات مُلّا عبدالحکیمؒ کے مقبرہ پر تیسری جمعرات محلہ چرا غ پورہ میں حضرت شاہ مونگا ولیؒ کی بارگاہ میں اور آخری اور چوتھی جمعرات شاہ سیداںؒ کے حضور حاضری دیتے تھے۔
یہ عہد مغلیہ کی بات ہے کہ سیالکوٹ میں ایک ایسا دینی مدرسہ درالعلوم مُلّا کمال الدین کشمیری پل نالہ ایک کے پاس موجود تھا جہاں دور دراز کے علاقوں سے طالبان علم آکر اپنی علمی پیاس بجھاتے اور دین کا علم حاصل کرتے تھے اس جامعہ کے مہتمم اعلیٰ حضرت مُلّا کمالؒ الدین کشمیری تھے جن کے لاتعداد شاگردوں میں سے منفرد اور بڑی شہرت و ناموری پانیوالے شاگرد خاص مُلّا عبدالحکیمؒ کا نام قابل ذکر ہے۔ وہ اپنے استاد کی وفات کے بعد اسی دارالعلوم کے ناظم اعلیٰ بن گئے۔ دوسرے شاگرد الشیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانیؒ تھے جو متحدہ ہندوستان کے مشہور شہر سرہند سے حصول علم کے لئے سیالکوٹ تشریف لائے جبکہ تیسرے شاگرد نواب سعد اللہ خان تھے۔
ایک دیرنہ عرصہ سے یہ خواہش ذہن میں کروٹیں لے رہی تھی کہ اس عظیم المرتبت ہستی کی بارگاہ میں بصد عجز و نیاز اور ادب و احترام حاضری دینے والے اُس جن کی بابت محتر م احسان صابری قریشی مرحوم سابق پرنسپل گورنمنٹ پولی ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ برلب قلعہ سیالکوٹ کی ایک بیان کردہ روایت کے حوالہ سے وہ حیرت انگیز اور معلوماتی باتیں ایک تازہ اور اچھوتے انداز میں قارئین کی خدمت میں پیش کروں۔ عبدالرحمن نامی یہ جن ایک ایسے جن کے فرزند عزیز تھے جن کو جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست اقدس پر بیعت کرنے کا شرف و اعزاز حاصل تھا اس طرح اس سعادت عظمیٰ کے باعث وہ صحابیت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوگئے اور اللہ کریم نے عبدالرحمن جن کو تابعی ہونے کا شرف بخشا۔ یہ جن علامہ مُلّا عبدالحکیم کے شاگرد خاص تھے ۔اپنی تعلیم کے بعد انہوں نے استاد محترم کی خدمت کا حق بڑے انوکھے انداز میں ادا کیا۔ اگر موصوف جن تادم تحریر زندہ ہیں تو یقینا حسب سابق وہ اپنے استاد مُلّا  عبدالحکیم ؒ کے مزار پر حاضری دیتے ہوں گے۔
حضرت ملا عبدالحکیم ؒشیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانیؒ کے ہمعصر اور ہم مکتب بھی تھے آپ مشرب کے لحاظ سے حضرت بہاء الدین نقشبند کے پیروکار تھے اور اسی سلسلہ ولایت کے ایک تابناک ستارے تھے۔ 12 ربیع الاول  1022 ہجری تا 11 ربیع الاول 1023 ہجری کے دوران مجدد الف ثانیؒ کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت کی اور سب سے پہلے ان کو امام ربانی محبوب سبحانی مجدد اَلف ثانی  ؒ کے معنویت سے بھرپور الفاظ و القابات میں ملا عبدالحکیمؒ نے ہی تحریر فرمایا اور تجدید اَلف کے اثبات میں ایک رسالہ ’’دلائل التجدید‘‘ میں باقاعدہ مجدد الف ثانی  ؒ ثابت کرکے دکھایا۔
میں چونکہ ذاتی طور پر اس داستان حیرت انگیز کو قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں لہٰذا یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ سیالکوٹ کے اس محلہ کا مختصراً تعارف بھی پیش کردوں جہاں مُلّا عبدالحکیمؒ کا مزار مبارک موجود ہے ۔ تاریخ سیالکوٹ میں یہ بات درج ہے کہ اس مغلیہ عہد میں مُلّا کمال نام کے دو بزرگ تھے جن میں ایک کی وفات اسی شہر میں ہوئی اور یہیں ان کا مدفن محلہ بجلی گھر میں موجود ہے جبکہ دوسرے مُلّا کمال لاہور میں قاضی القضاء (چیف جسٹس) کے اہم اور ذمہ دار عہدہ پر فائز تھے اور لاہور میں ہی دفن ہوئے۔ گویا یہ دو علیحدہ علیحدہ برگزیدہ بزرگ ہیں جن کو ایک کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
محترم احسان صابری قریشی مرحوم ایک بار جمعرات کے روز شام کے وقت حسب معمول ملا عبدالحکیمؒ کے مقبرہ پر جب حاضر ہوئے تو وہاں انہوں نے دیکھا کہ ایک افغانی طرز کے کابلی پٹھان بزرگ نہایت سفید و سرخ رنگت والے، مزار کے نزدیک بیٹھ کر بڑی بلند آواز اور خوش الحانی سے تلاوت قرآن کر رہے ہیں کلام ربانی کو اگر صحیح لحن اور تلفظ کی ادائیگی سے پڑھا جائے تو دل کے سوتے پھوٹ اُٹھتے ہیں۔ فضائوں میں تیرتے پرندے ٹھہر جاتے ہیں سمندر اور دریائوں کا شور مدھم پڑ جاتا ہے اور جن و انس پر ایک رقت اور ہیبت طاری ہو جاتی ہے کچھ ایسی ہی خوش الحالی نے جناب صابری مرحوم کو بھی متاثر کر دیا اور فاتحہ کہنے کے بعد افغانی النسل بزرگ پٹھان کے نزدیک آکر بیٹھ گئے۔ انہوں نے جب ایک اجنبی شخص کو اپنے پاس بیٹھے پایا تو اچانک ان کی آواز خاموش ہوگئی۔ پھر موقعہ غنیمت جان کر صابری صاحب نے نہایت مودبانہ لہجہ میں ان سے پوچھا خان صاحب آپ کون ہیں اور کہاں سے تشریف لائے ہیں؟ کیونکہ اس سے پہلے کبھی آپکو یہاں دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ وہ بزرگ شکستہ اُردو لہجہ میں بولے میں افغانستان کے شہر کابل کا رہنے والا ہوں صابری صاحب نے دوبارہ پوچھا آپ کی عمر کتنی ہے؟ بزرگ بولے بیٹا میری عمر 950 برس ہے اس پر صابری صاحب کو یقین نہ آیا تو انہوں نے دوبارہ تصدیق چاہی چنانچہ دوسری بار بھی انہوں نے پہلے جیسا ہی جواب دیا اس پر احسان صابری مرحوم کو قدرے حیرت اور غصہ آگیا اور کہنے لگے خان صاحب قرآن شریف پڑھ کر اور اسکی تلاوت کرکے آپ غلط بیانی کر رہے ہیں بھلا اس دور میں کیا انسانوں کی عمر 950 برس ہوسکتی ہے؟ صابری صاحب کے یہ الفاظ سننا تھے کہ ان بزرگ کا پارہ چڑھ گیا اور یکدم غصے سے چہرہ سرخ انگاروں کی طرح سرخ ہوگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کا جسم تو نارمل رہا مگر سر بڑھتے بڑھتے دیگ کے برابر ہوگیا اور آنکھیں ایک مٹی کے پیالے جتنی ہوگئیں صابری صاحب نے جب یہ خوفناک منظر دیکھا تو سمجھ گئے کہ یہ بزرگ آدم زاد نہیں بلکہ جنات میں سے ہیں لہٰذا خوفزدگی کے عالم میں فوراً وہاں سے اٹھ کر بھاگنے لگے، ابھی وہ بڑے دروازہ پر پہنچے ہی تھے کہ ایک 10 گز لمبا ہاتھ ان کے سر پر آن پہنچا اور ان کی گردن کے گرد اپنی لمبی لمبی مضبوط انگلیاں پیوست کرتے ہوئے انہیں اوپر اٹھا کر مزار کے نزدیک لا پھینکا، ایک شدید جھٹکا لگنے کے بعد ان کے بازو پر چوٹ آگئی اور وقتی طور پر اوسان خطا ہوگے ،کچھ دیر کے بعد وہ اٹھے اپنے حواس کو یکجا کیا اور بزرگ خان صاحب کے سامنے دست بستہ ہو کر اپنی بات پر معافی طلب کی جب خان صاحب نے ان کی انکساری اور غلطی کے احساس سے پھیلی ہوئی چہرے کی رنگت میں پیلاہٹ دیکھی تو ان کے اندر ایک رحم کا مادہ پیدا ہوا تاہم اس دوران صابری صاحب بار بار بڑے درد مندانہ لہجے میں اعتراف کر رہے تھے کہ میں نے لاعلمی میں یہ جملہ کہہ دیا میری خطا کو معاف فرما کر مجھے گھر جانے کی اجازت دیدیں کیونکہ بائیں با زو پر مجھے شدید درد محسوس ہو رہا ہے، وہ بیحد خوفزدہ ہو چکے تھے جب خان صاحب کی طرف سے کوئی حوصلہ افزا جوابی ردعمل ظاہر نہ ہوا تو صابری صاحب نے بلند آواز سے رونا شروع کر دیا یوں لگ رہا تھا جیسے درد سے زیادہ ان پر عبدالرحمن جِنّ کا خوف طاری ہوگیا ہے اور آنکھ جھپکتے ہی وہ یہاں سے بھاگ جانا چاہتے ہیں۔ مبادا! ان کی جان نہ چلی جائے جب ایسی صورت حال پیدا ہوگئی تو وہ دیگ نما سر آہستہ آہستہ سکڑتا گیا حتیٰ کہ اپنی قدرتی حالت پر آگیا اور طویل بازو اور ہاتھ بھی نارمل ہوگئے، عبدالرحمن جن کی بڑی بڑی آنکھیں بھی حسب سابق ہوگئیں۔ پھر بزرگ خان صاحب نے بڑی محبت اور شفقت سے صابری صاحب کو پکڑ کر اپنے نزدیک کیا ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور درد والے بازو پر کچھ پڑھ کر اسے سہلایا جس سے سارا درد ختم ہوگیا۔ اب خان صاحب نے ان سے کچھ سوالات پوچھنا شروع کیے مثلاً تمہارا نام کیا ہے؟ کس خاندان سے تعلق ہے؟ صابری صاحب نے بڑی احتیاط اور دیانتداری سے سوچ سمجھ کر سہمے سہمے لہجہ میں سب سوالات کے جوابات دیئے مبادا یہ پھر ہیبت ناک شکل و صورت اختیار کرلیں ،اب کی بار اگر ایسا ہوگیا تو میری ہڈی پسلی ایک کر دی جائے گی۔ ان سوالات کے بعد عبدالرحمن جِنّ نے اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ میرا نام عبدالرحمن ہے میں انسان نہیں جِنّ ہوں میں حضرت مُلّا عبدالحکیمؒ کا ایک پرانا شاگرد ہوں اور کافی عرصہ تک ان کے مدرسہ میں دینی تعلیم حاصل کرتا رہا ہوں میرے والد صاحب کا نام عبداللہ ہے اور وہ ضعیف العمر ہیں انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عہد دیکھا ہے اور ان کے دست مبارک پر بیعت کرکے صحابیت کا مرتبہ پایا ہے اس طرح میں والد صاحب کو دیکھ کر تابعی اور آپ نے مجھے دیکھا تو آپ تبع تابعین میں شامل ہوگئے۔ جب صابری صاحب نے ان کا یہ حیرت انگیز کمال شفقت پیار بھرا نرم لہجہ اور خوش طبع حسن سلوک دیکھا تو وقوع پذیر ہو نیوالا سارا واقعہ بھول گئے اور ان کی جان میں جان آگئی۔ پھر صابری صاحب نے عبدالرحمن جن کو اپنی مختصر داستان سنائی کہ میں بھی ملا عبدالحکیمؒ کا ایک محب اور عقیدت مند ہوں اور ایک طویل عرصہ سے جمعرات کے روز ان کے آستانہ پر حاضری دیتا ہوں۔ صابری صاحب نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے خان صاحب سے پوچھا آپ نے مولانا عبدالحکیمؒ سے کن وقتوں میں فیض علم حاصل کیا تھا؟ اگر اس دَور کا کوئی دلچسپ واقعہ سنا دیں تو مہربانی ہوگی عبدالرحمن یہ سن کر مسکرائے اور صابری صاحب کو تسلی دیتے ہوئے بولے۔ کیا احادیث صحاح ستہ میں تم نے یہ واقعہ نہیں پڑھا کہ ایک مرتبہ سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست حق پرست پر کم و بیش ایک ہزار اجنہ (جنات) کی جماعت نے بیعت کی تھی؟ صابری صاحب خاموش رہے اور عبدالرحمن جن نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے مزید کہا۔ اس حدیث صحیحہ کے راوی مشہور صحابی حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ ہیں اور جنات کی اس جماعت میں سے اس واقعہ کے راوی میرے والد بزرگوار حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ ہیں ان کی جماعت میں شامل جن ایک ہزار جنات نے بیعت کرکے اسلام کی نعمت کو اپنے دامنوں میں ڈالا ان میں سے اب تک 997 جناب وفات پاچکے ہیں جبکہ باقی تین ابھی تک زندہ ہیں ان میں سب سے پہلے میرے والد صا حب ہیں جو افغانستان کابل میں رہتے ہیں دوسرے صحابی جن مدینہ منورہ میں رہائش پذیر ہیں جبکہ تیسرے صحابی جن مصر کے شہر قاصرہ میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔
عبدالرحمن جِنّ یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد تازہ دم ہو کر ایک بار پھر صابری صاحب سے مخاطب ہوئے۔ تم نے صحیح مسلم شریف کی وہ حدیث بھی پڑھی ہوگی جس کے راوی بھی حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں اس طویل حدیث میں یہ واقعہ درج ہے کہ ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلوۃ فجر سے فارغ ہو کر عبداللہ بن مسعودؓ کو اپنے ساتھ مسجد سے باہر دُور لے گئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاں جاکر کھڑے ہوئے وہ ایک کشادہ میدان تھا۔ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ کو ایک جگہ کھڑا کرکے ان کے گرد ایک حصار کھینچ دیا اور حکم دیا کہ تم اسی جگہ کھڑے رہنا۔ اسکے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک سمت میں تقریباً تین سو گز کے فاصلہ پر جاکر رک گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد آسمان کی وسعتوں میں بڑے بڑے پرندوں کا ایک غول نظر آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ بھاری بھر کم جسامت والے ایک ہزار پرندے زمین پر اتر کر بڑے نظم و ضبط ادب اور احترام کے ساتھ خود بخود ہی قطار اندر قطار نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب اپنے چہرے کرکے بیٹھتے گئے پھر جب یہ تمام پرندے اُتر گئے تو معلّم انس و جنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کی حمد و ثناء بیان کی اور بعد ازاں فضائل دین اسلام کے موضع پر ان سے مفصل خطاب فرمایا اس دوران پرندوں کی جماعت ہمہ تن گوش رہی جب خطاب ختم ہوا تو ان پرندوں نے (جو اصلاً اجنہ/ جنات تھے) کلمہ طیبہ کاورد شروع کر دیا پھر اسکے بعد بڑے ادب و احترام اور نظم و ضبط کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب باری باری چل کر آتے اور اپنی طبعی چونچ سے دست رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بوسہ دیتے جب تمام نے اس عجیب انداز میں بیعت کرلی تو فضائوں میں پرواز کرگئے ۔ اب حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام اپنے صحابی حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس واپس تشریف لے گئے جنہوں نے تعمیل حکم میں اسی دائرہ کے اندر کھڑے رہ کر یہ تمام منظر ملاحظہ فرمایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو بتلایا کہ آج جنات کی اس جماعت نے میرے ہاتھ پر بیعت کرکے اسلام قبول کیا ہے۔
صابری صاحب ؒ مرحوم اس واقعہ کو بڑی توجہ اور انہماک سے سن رہے تھے جونہی خان صاحب خاموش ہوئے صابری صاحب نے ان سے مزید پوچھا آپ کے والد گرامی صلوٰۃ کس طرح ادا فرماتے ہیں عبدالرحمن جن نے بتلایا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقہ پر صلوٰۃ ادا فرماتے ہیں۔ اسکے بعد صابری صاحب نے مزید دریافت کیا کہ حضرت مُلّا عبدالحکیمؒ کے پاس حصول علم کے زمانہ میں پیش آنیوالے واقعات جو آپ کو یاد ہوں، عبدالرحمن جن نے کہا ہاں ایک نہایت دلچسپ واقعہ تمہیں سناتا ہوں۔ جب میں سال دوم (Second year)کا طالب علم تھا تو میرے استاد محترم مُلّا عبدالحکیمؒ کو شدید یرقان ہوگیا حکیموں/ طبیبوں نے اس موذی مرض کا علاج سبز تازہ الائچی کے دانوں سے تجویز کیا۔ تازہ الائچیوں کا ملنا شہر سیالکوٹ میں دشوار بلکہ ناممکن تھا کیونکہ اس علاقہ میں دور دور تک الائچیوں کا کوئی باغ نہ تھا ایسے مشکل وقت میں استاد محترم کی خدمت میرا فرض اولین تھا جب ہر ایک نے الائچی کی دستیابی سے انکار کر دیا اور مسئلہ بڑا مشکل اور کٹھن ہوگیا تو میں نے استاد محترم سے درخواست کی کہ اگر مجھے ایک تیز رفتار گھوڑا فراہم کر دیا جائے تو میں چند دنوں تک ایسی الائچیاں لاسکتا ہوں چنانچہ میری درخواست منظور کرلی گئی اور مجھے ایک برق رفتار گھوڑا دیدیا گیا میں اس گھوڑے پر سوار ہو کر سیدھا یہاں سے 20 میل دور پسرور پہنچا اور وہاں کسی کے پاس اس گھوڑے کو باندھا اور اپنی تیز پرواز کے ذریعے پشاور پہنچا وہاں سے میں نے وادی چترال کے پھلوں کے ایک سوداگر سے سبز اور تازہ الائیچیاں حاصل کیں اور اسی رفتار سے واپس پرواز کرکے پسرور پہنچ گیا یہاں میں نے جان بوجھ کر دو دن قیام کیا پھر استاد محترم کی خدمت میں سیالکوٹ آگیا اور چترالی الائچیاں پیش کر دیں ان سے استاد محترم کا علاج کیا گیا تو چند دنوں بعد وہ صحت یاب ہوگئے ۔اس واقعہ کے عرصہ بعد پسرور کے اس شخص نے (جسکے ہاں میں نے گھوڑا باندھا تھا)اُستاد صاحب کو آکر یہ بتا دیا کہ پچھلے دنوں عبدالرحمن ایک گھوڑا لیکر میرے پاس آیا تھا اور اسکو میرے گھر باندھ کر کہیں چلا گیا اور شام کو واپس آیا میرے پاس دو دن ٹھہرا اور چلا گیا انہوں نے پوچھا گھوڑا کیسا تھا؟ اس شخص نے جواب دیا بالکل تروتازہ۔ ملا عبدالحکیمؒ پر جب یہ انکشاف ہوا تو مزید حیران ہوئے اور معاملہ کو بھانپ گے کہ عبدالرحمن آدم زاد نہیں بلکہ جنّ ہے اگر انسان ہوتا تو اتنی کم مدت میں چترال جیسے سینکڑوں میل دور علاقہ سے یہ تازہ الائچیاں کیسے لا سکتا تھا۔ قارئین کی مزید دلچسپی کے لئے مزید ایک واقعہ بھی قریب از حقیقت ہے کہ تحصیل علم کے دوران ایک مرتبہ عبدالرحمن جن نے اپنے ہم جماعتوں سے کہا کہ دیکھو میں کیا کرتا ہوں چنانچہ ساتھیوں نے دیکھا کہ وہ مٹی کے لوٹے میں داخل ہوگیا اور اسکی ٹونٹی سے باہر نکل آیا، ساتھی یہ منظر دیکھ کر خوفزدہ ہو کر بھاگ گئے اور اسکی شکایت انہوں نے اپنے پرنسپل مُلّا عبدالحکیمؒ سے کی آپ نے عبدالرحمن کو بلا کر پوچھا کہ تم نے کیا ایسا کیا ہے؟ جب انہوں نے اقرار کیا تو صاحب بصیرت ہونے کی وجہ سے آپ اس راز کو سمجھ گئے کہ عبدالرحمن آدم زاد نہیں لہٰذا حفظ ماتقدم کے طور پر اسے ڈانٹ پلائی اور ایسی حرکت کرنے سے منع کیا تاکہ دوسرے ہم جماعتوں میں خوف و ہراس نہ پیدا ہو جائے۔ بہرکیف انہوں نے کسی دوسرے سے اس بات کا تذکرہ نہ کیا اور مجھے اپنے ہاں بلایا جب میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو نہایت شفقت و مروت سے مجھے اپنے پاس بٹھایا اور پیار سے بولے۔ بیٹا عبدالرحمن میں تمہاری اس گرا نقد خدمت کا بے حد شکر گزار ہوں جو تم نے میری اس بیماری میں انجام دی اور میری صحت و تندرستی کے لئے تم نے اتنا طویل اور دور دراز کا سفر طے کرکے وہ چیز فراہم کی جس کا اس شہر میں ملنا ناممکن تھا اس سے اللہ تعالیٰ نے مجھے صحت عطا فرمائی مگر اس بات سے مجھ پر یہ راز منکشف ہوا کہ تم آدم زاد نہیں بلکہ جن ہو۔ حدیث میں درج ہے کہ جنات سے انسانوں کو تعلقات استوار نہیں رکھنا چاہیے تمہاری تعلیم کے مکمل ہونے میں ابھی چند ماہ باقی ہیں مگر تم اپنی تعلیم کو مکمل ہی سمجھو لہٰذا تم مدرسہ چھوڑ کر واپس چلے جائو۔ عبدالرحمن نے اپنی داستان جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ استاد محترم کی یہ بات سن کر میں نے ان کی خدمت میں نہایت ادب سے عرض کیا اس میں شک نہیں کہ میں جنات کی نسل سے ہوں مگر اب چونکہ آپ کا حکم ہے کہ میں یہاں سے چلا جائوں اس لئے میری یہ شرط ہے کہ جانے سے پیشتر میری جانب سے پانچ سو اشرفیوں کا یہ حقیر نذرانہ قبول فرمائیں۔ شاگرد کا یہ خلوص دیکھ کر استاد محترم نے فرمایا بیٹا! میں ویسے ہی تم پر خوش ہوں ،مجھے ان اشرفیوں کی کوئی حاجت نہیں ہے لہٰذا تم ایسے ہی چلے جائو۔ استاد کی حکم عدولی چونکہ نافرمانی اور بے ادبی کے زمرہ میں آتی ہے لہٰذا میں نے الوداعی السلام علیکم !کہی اور وہاں سے پرواز کرگیا اور ہندوستان کے تاریخی شہر آگرہ جا پہنچا، وہاں میں نے معلومات حاصل کیں تو پتہ چلا کہ ملک کا حکمران شاہ جہان دہلی میں موجود ہے چنانچہ اسی دوران میں نے شاہ جہان کی بارہ سالہ بیٹی روشن آرا بیگم کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ جب شاہ جہان کو اس کا علم ہوا تو فوراً اس نے لاہور، بمبئی، انبالہ اور دیگر کئی شہروں سے اجنہ پر قابو پانیوالے بڑے بڑے عامل طلب کئے لیکن سب ناکام و نامراد لوٹ جاتے ان میں سے اکثر عاملین نے مجھے نکلنے کے لئے اپنے وظائف میں آیت الکرسی کا ورد کیا اور میں جوا باً ردعمل کے طور پر سورہ مزمل کا وِرد کرکے ان کو بے اثر بنا دیتا جس سے ان کا کوئی عمل کارگر ثابت نہ ہوتا۔ ان سب عاملین کے بعد سلسلہ نقشبندیہ کے حضرت محمد معصوم صاحب کو سرہند سے آنے کی زحمت دی گئی جب انہوں نے اپنا عمل شروع کیا تو میں نے ان سے جواباً کہا حضرت میں صرف ایک ہی شرط پر شہزادی روشن آرا بیگم کی جان چھوڑوں گا اگر آپ سیالکوٹ سے میرے استاد محترم ملا عبدالحکیمؒ کو یہاں آنے کی دعوت دیں۔ آپ کو نہیں بھولنا چاہیے کہ اب تک تیس عاملین مجھ پر قابو پانے کی کوشش کر چکے ہیں مگر نامراد لوٹے ہیں لہٰذا آپ میری پیش کردہ شرط پر عمل درآمد کریں۔ شاہ جہان کو جب یہ شرط پیش کی گئی اس نے فوراً چند درباری کارکنوں کو سر زمین سیالکوٹ کی طرف روانہ کر دیا اور یہ پیغام اور ہدایات دیں کہ اللہ کے اس برگزیدہ بندے کو بڑے ادب و احترام سے میری طرف سے عرض کرنا کہ حضرت مُلّا عبدالحکیمؒ سے شہنشاہِ ہند کو دُکھی انسانیت کی خدمت کے سلسلہ میں ایک اہم ترین کام ہے لہٰذا اسکے لیے آپ کی دہلی میں تشریف آوری ناگزیر و لازم ہے ۔جب یہ شاہی وفد دہلی سے سیالکوٹ پہنچا اور مُلّا عبدالحکیمؒ کی خدمت میں بادشاہ کی عرضداشت پیش کی تو آپ کا درد مند دل گداز ہو گیا اور آپ نے ان کے ہمراہ چلنے پر رضا مندی کا اظہار کر دیا، چنانچہ بڑی عزت و احترام کے ساتھ اور جملہ شاہی آداب کو ملحوظِ خاکر رکھتے ہوئے اس دُرویش صفت ہستی کو دہلی لایا گیا۔ جب آپ کی آمد کا علم شاہ جہان کو ہوا تو بہ نفس نفیس وہ تمام آداب / پروٹوکول کے ساتھ آپ کے استقبال کے لیے باہر آیا ۔آپ کا والہانہ انداز میں خیر مقدم کیا گیا‘ محل کے اندر آپ کی نشست وبرخاست کا اہتمام کیا گیا اور پھر بادشاہ نے بھیگی آنکھوں سے اپنے دکھ کی داستانِ غم حضرت موصوف کی خدمت میں بیان کی۔ حضرت مُلّا عبدالحکیمؒ نے بلاتا خیر مریضہ شہزادی روشن آرا بیگم کو پیش کرنے کا حکم دیا جب شہزادی کو آپکی بارگاہ میں لایا گیا تو آپ نے بڑی شفقت سے اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر اپنے قریب بٹھایا۔ حضرت عبدالرحمن نے داستان جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جب میں نے اپنے شفیق استاد محترم کو اپنے رُوبرو دیکھا تو ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیا حضرت نے مجھ سے کلام شروع کیا اور قدرے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے مجھ سے فرمایا عبدالرحمن تم نے یہ حرکت کیوں کی؟ میں نے کہا استاد محترم! میں اس شرط پر شہزادی کے وجود سے خارج ہوں گا کہ اگر شاہجہان آپ کی خدمت میں سات اونٹ اشرفیوں سے لدے ہوئے پیش کرے اور مزید ہدیہ جات دے۔ حضرت مُلّا عبدالحکیمؒ کو چونکہ کسی انسان کی تکلیف اور پریشانی کا ازالہ کرنا مقصود تھا ،نہ کہ حصول زر و مال آپ کی خواہش تھی لہٰذا وقت کی نزاکت اور حالات کی مصلحت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے آپ نے اپنے شاگرد کا مطالبہ تسلیم کرلیا اور شاہجہان نے بھی یہ شرط پوری کرنے پر رضا مندی ظاہر کر دی دریں اثنا عبدالرحمن نے بلاکسی حیل و حجت استاد محترم کو السلام علیکم !کہا اور روشن آرا بیگم کو اپنی گرفت سے آزاد کرکے پرواز کرگیا۔ شہزادی کی حالت یکدم بدل گئی اور سارے دربار میں خوشی و مسرت کا سماں پیدا ہوگیا۔ شاہ جہان نے حسبِ وعدہ یہ تمام مال و زر سیالکوٹ کے لئے روانہ کر دیا جب یہ قافلہ دہلی سے سر زمین لاہور میں پہنچا تو حضرت مُلّا عبدالحکیمؒ نے لاہور کے صوبہ دار سے فرمایا شاہ جہان نے یہ سات اونٹوں پر لدی ہوئی اشرفیاں اور دیگر مال و زر میرے ہمراہ بھیجا ہے اگر میں یہ تمام دولت سیالکوٹ لے گیا تو ممکن ہے خاندان کے افراد میں تنازعہ پیدا ہو جائے کیونکہ مال فتنہ و فساد کی جڑ ہے لہٰذا یہ مال آپ اپنے پاس رکھ لیں اور نیک مقصد پر صرف کردیں باقی کچھ مال و دولت آپ ہمراہ سیالکوٹ لائے اور اس سے تین چیزیں تعمیر کروائیں:
1 ۔ وسیع کشادہ سرائے جو غالباً سیالکوٹ کے ایک قریبی قصبہ چنوموم میں مفادعامہ اور لوگوں کے ٹھہرنے کے لئے وقف کر دی گئی۔ 2 ۔ ایک جامعہ مسجد جو اس وقت تحصیل بازار سیالکوٹ کی ایک قدیم مسجد ہے اور جامعہ عبدالحکیم کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہے3 ۔ ایک کشادہ پانی کا تالاب جو پرانا بجلی گھر کے وسیع احاطہ میں بنوایاہر چند یہ تالاب عہد حاضر میں اپنی افادیت ختم کرکے خشک ہو چکا ہے تاہم اسے دیکھ کر اللہ کے اس نیک بندے کی یاد اب بھی تازہ ہو جاتی ہے اس تالاب کے جنوب میں مزار حضرت سید شاہ مونگا ولی ،شمال میں پرانا سول ہسپتال اور اسکے قریب مغرب میں عبدالحکیم پارک اورحضرت مُلّا عبدالحکیمؒ کا مزار پرانوار موجود ہے۔
فیض مزار اقدس:
حضرت ملا عبدالحکیمؒ کے مزار مبارک پر اگر کوئی غبی بچہ (کند ذہن / مفلوج الدّماغ) آکر خاکِ مزار چاٹ لے تو بفضل تعالیٰ اس کا ذہن حکمت الٰہی سے کھل جاتا ہے۔ حضرت مُلّا عبدالحکیمؒ وہ عظیم المرتبت صاحب علم و بصیرت ہستی ہیں جن کی کئی کتب اس زمانہ اور دور میں بھی عالم اسلام کی قدیم عظیم ترین یونیورسٹی جامعہ الازہر قاہرہ (مصر) میں طلباء کو پڑھائی جاتی ہیں۔
اس طویل اور انوکھی علمی داستان کے اختتام پر عبدالر حمن جِنّ نے صابری صاحب کو بڑے راز دارانہ لہجہ میں فرمایا۔ بیٹا احسان! اس ملاقات کا چرچا نہ کرنا بلکہ اسے ایک راز سمجھ کر اپنے تک ہی محدود رکھنا۔ احسان صابری قریشی مرحوم کہتے ہیں کہ میرا سینہ یہ گراں بار راز اپنے اندر زیادہ عرصہ تک محفوظ نہ رکھ سکا اور یہ واقعہ میں نے کھول کر بیان کر دیا جس کا ردّعمل یہ ہوا کہ حضرت مُلّا عبدالحکیمؒ کے مقبرہ پر بارہا دفعہ جانے کے باوجود حضرت عبدالرحمن جِنّ سے میری ملاقات نہ ہوسکی جس کا مجھے بے حد دُکھ اور صدمہ ہے حالانکہ انہوں نے یہ راز محفوظ رکھنے کی شرط پہ بشرط زندگی مجھ سے پھر ملاقات کا وعدہ بھی فرمایا تھا لیکن ایسا نہ ہوسکا۔

حوالہ : ماہنامہ سبیل ہدایت لاہور بابت جون 2005

مسلمان کولمبس سے پہلے امریکا دریافت کر چکے تھے

  

کئی شہادتوں سے ثابت ہوتاہے کہ اندلس (سپین ) اورمغربی افریقہ سے مسلمان کرسٹوفرکولمبس سے کم وبیش پانچ صدیاں پیشتر امریکہ پہنچے تھے بلکہ اس کی ٹھوس شہادت موجود ہے کہ مسلمان جہازراں ہی کولمبس کونئی دنیا کی طرف لے کر گئے تھے

اندلس میں مسلمانوں کے آخری قلعے غرناطہ کاسقوط 1492ء میں ہوا عیسائی عدالتوں کااحتساب شروع ہونے کے کچھ عرصہ پہلے تفتیش وتشدد سے بچنے کے لئے بے شمار مسلمان امریکہ اوراس خطے کے دوسرے ممالک کیطرف چلے گئے پاپھرجا ن اورعزت وآبروبچانے کے لئے انہیں کیتھولک عیسائی بننا پڑا ۔کم ازکم دودستاویزات امریکہ میں950ء سے قبل مسلمانوں کی موجودگی ثابت کرتی ہیں ۔1539ء میں شاہ سپین چارلس پنجم نے فرمان جاری کیاتھا کہ اگر مسلمان آگ میں زندہ جلانے سے بچناچاہتے ہیں توجزائرغرب الہند کی طرف ہجرت کریں یاپھر عیسائی بن جائیں ۔1543ء میںاس فرمان کی توثیق کی گئی کہ سپین کے زیر تسلط سمندر پارعلاقوں سے بھی مسلمانو ں کونکال دیا جائے ۔کولمبس سے پہلے مسلمانوں کے امریکہ پہنچے کے کئی تاریخی حوالے بھی ملتے ہیں جن میں سے چندیہ ہیں ۔

تاریخی حوالے 

1۔ مسلمان مورخ اورجغرافیہ دان ابوحسن علی ابن الحسن المسودی 871تا957ء نے اپنی کتاب ،مروج الذھب ومعدن الجواہر ، میںلکھا ہے کہ اندلس کے مسلمان خلیفہ عبداللہ بن محمد 888 ء تا912)کے دورمیں قرطبہ کاایک مسلمان جہاز راں خشخاش ابن سعید ابن اسود اندلسی بندرگاہ ڈیلبا(پالوس) سے 889ء میں روانہ ہوا ء بحرہ اوقیانوس پارکر کے نامعلوم خطے پہنچا اورعجیب وغریب مال ودولت کے ساتھ لوٹا ۔المسودی نے جودنیا کانقشہ بنایا اس میں اس نے بحرظلمات (بحر اوقیانوس ) میںبہت بڑے علاقے کو نامعلوم سرزمین لکھا ہے۔ 

2۔ایک مسلمان مورخ ابوبکر ابن عمر لکھتاہے ،اندلس کے خلیفہ ہشام ثانی کے دور میں غرناطہ کاایک مسلمان جہازراں ابن فرخ فروری 999ء میں بحراوقیانوس میں سفر کرتا ہوا گینڈو(گریٹ کناری جزائر ) اترااور وہاں کے حکمران سے ملاقات کی ۔اس نے پھر مغرب کی طرف اپنا سفرجاری رکھا اوردوجزائر دیکھے ۔اس نے ان جزائر کے نام کیپر یریا اورپلوٹینیا رکھے ،وہ مئی 999ء میں واپس اندلس پہنچا ۔

3۔کولمبس سپین کی بندرگاہ پالوس سے روانہ ہوا ،تو راستے میں ایک جزیرے غومیراپراترا ۔یہ اس لفظ کی اصل عربی ہے جواس زمانے میںکناری جزائر کانام تھا۔ اس جزیرے میںوہ جزیرے کے سربراہ کی لڑکی( بیٹر بوبادیلا) کی محبت میں گرفتارہوگیا ۔اس لڑکی کاخاندانی نام بوباد یلا دراصل عربی لفظ عبداللہ سے ماخوذ تھا ۔12اکتوبر 1492ء کولمبس بہااس میں ایک چھوٹے سے جزیرے پراترا جسے وہاں کے لوگ غواناحی عربی الفاظ اخوان اورحی کامجموعہ ہے ۔غوآنا ہے کے معنی ہیں ’’ برادر ‘‘ اورحی ایک عربی نام ہے یعنی جزیرے کااصل نام ’’ حی برادر ‘‘ تھا ۔

4۔ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والاایک معروف امریکی مورخ اورماہر لسانیات لیوویزے نے اپنی کتاب’’افریقہ اینڈ دی ڈسکوری آف امریکہ ‘‘ ( 1920 ء)میںلکھا ہے کہ کولمبس نئی دنیا میں مینڈنکا (مغربی افریقہ کے حبشی قبائل ) کے وجود سے آگاہ تھا ۔مغربی افریقہ کے کہ مسلمان پورے کیریبیٗن ،وسطی ،جنوبی اورشمالی امریکہ کے علاقوں میں پھیلے ہوئے تھے ۔ان میںکینیڈا کے علاقے بھی شامل تھے ۔یہاں مسلمان نہ صرف تجارت کرتے بلکہ عروقیوئس اورالگونقو ئن نامی ریڈ انڈین قبائل میںشادیاں بھی کرتے تھے۔

جغرافیائی شہاد تیں 

1۔مشہور مسلم جغرافیہ داں نقشہ نویس الشریف الادریسی (1099ء1166 ء)نے اپنی کتاب میںلکھا ہے کہ کچھ عرصہ قبل شمالی افریقہ کے ملاحوں کے ایک گروہ نے لزبن (پرتگال)سے بحر ظلمات میں سفر کیا۔ وہ دیکھنا چاہتے تھے کہ اس سمندر میں کیا کیا ہے اوراس کی حدود کہاں ختم ہوتی ہیں ۔بالآخر وہ ایک جزیرے پرپہنچے جہاں انسان بھی تھے اور زراعت بھی ۔

2۔مسلمانوں کوحوالہ جاتی کتب میں مراکشی جہاز راں شیخ زین الدین بن فضل کے بحراوقیانوس میں سفر کے دستایزی ثبوت ملتے ہیں ۔شاہ ابویعقوب سیدی یوسف (دورحکومت1286ء 1037ء) کے دور حکومت میں اس نے طرفایا (جنوبی مراکش ) سے سفر کاآغاز کیاور1291ء ) میںبحرکیر یبیئن کے گرین آئی لینڈ میںاترا۔اس سفر کی تفصیلات اسلامی حوالہ جاتی کتب میںپائی جاتی ہیں اورمسلم دانشور اس سے آگاہ ہیں ۔

3۔مسلمان مورخ شہاب الدین ابوالعباس احمد بن فضل العمری  (1300ء 1338)نے اپنی کتاب ’’مسالک البصارفی ممالک الامسار ‘‘ میں بحرظلمات (بحر اوقیانوس )علاقوں کی جغرافیائی تفصیل دی ہے۔

4۔سلطان مانسو کنکن موسٰی مغربی افریقہ اسلامی سلطنت مائی کامعروف حکمران تھا ۔1324ء میں جب اس نے حج کاسفر کیا تو قاہرہ میں محققین کوبتایا کہ اس کے بھائی سلطان ابوبکر اول (دورحکومت 1285ء1312)نے بحراوقیانوس میں دوبحری سفر کئے تھے ۔جب دوسرے سفر سے وہ نہیں لوٹا تو 1312ء میں موسیٰ نے سلطنت کی ذمہ داری سنبھال لی۔

5۔کولمبس سمیت اندلس اورپرتگال کے اولین مہم جو مسلمانو ں کی فراہم کی گئی بحری اورجغرافیائی معلومات کے ذریعے ہی بحراوقیانوس 2400کلومیٹر طویل سفر کرنے کے قابل ہوئے تھے۔ یہ معلومات انہیں مسلمان تاجروں کے بنائے ہوئے نقشوں اورالمسعودی (871ء تا947ء) کی کتاب ’’اخبارالزمان ‘‘ (دنیاکی تاریخ ) سے ملی تھیں ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ کولمبس کے بحراوقیانوس کے پہلے سفر میںدو مسلمان کپتان بھی عملے کے رکن تھے جوبحری سفر کے ماہر تھے۔ انہوں نے کولمبس کی بحری مہمات کومنظم کرنے میںبڑی سرگرمی دکھائی تھی ۔

عربی کتبے

1۔ماہرین بشریات نے ثابت کیا ہے کہ سلطان مانسو موسٰی کی ہدایت پرمینڈینکا قبائل نے مسی سیپی اوردوسرے دریائوں میں سفر کرتے ہوئے شمالی امریکہ کے کئی علاقے دریافت کئے ۔

2۔کولمبس نے اپنی تحریروں میں اعتراف کیاہے ک جب اس کاجہاز کیوبا کے شمالی مشرقی ساحل پرگبار ا کے نزدیک سفر کررہا تھا تواس نے پہاڑی کی چوٹی پرخوبصورت مسجد دیکھی ۔یادر ہے کیوباء میکسیکو ،ٹیکساس اورنیوادامیں مساجد اورمیناروں کے کھنڈروں اورقرآن آیات کے نقش ملے ہیں۔

3۔دوسرے بحری سفر کے دوران اسپانولا (ہیٹی )کے ریڈ انڈینز نے کولمبس کوبتایا کہ اس کی آمد سے قبل سیاہ فام لوگ (افریقی مسلمان ) جزیرے پرآئے تھے ثبوت کے طورپر انہوں نے ان کے نیزے اوربھالے پیش کئے ۔ان ہتھیاروں پرایک زرد رنگ کی دھات جسے گنین کہتے تھے چڑھی ہوئی تھی ۔یہ لفظ افریقی زبان کاہے جس کے معنی ہیں  ’’سوناملی دھات‘‘۔

1498-4ء میں اپنے تیسرے بحری سفرکے دوران کولمبس ٹرینی ڈاڈاترا ۔ بعد میں اس نے براعظم جنوبی امریکہ کانظارہ کیا جہاں اس کے کچھ جہاز ان ساحلوں کے ساتھ ساتھ آگے تک گئے ۔۔۔انہوں نے مقامی لوگوں کے پاس سوتی رنگداررومال دیکھے جومخصوص کپڑے کے تھے ۔یہ کپڑا اندلس اورشمالی افریقہ کے مسلمان ،مراکش ،سپین اورپرتگال میںمغربی افریقہ سے درآمد کرتے تھے ۔اسی سفر میںکولمبس کویہ دیکھ کربڑا تعجب ہوا شادی شدہ عورتیں پردہ دارلباس پہنتی ہیں جودراصل عربوں کے ذریعے یہاں پہنچا ۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے ڈاکٹر بیری فل نے اپنی کتاب ’’ساگا امریکہ 1980ء میںاس بات کے ثبوت میں کئی سائنسی شہادتیں پیش کی ہیں شمالی اورمغربی افریقہ کے مسلمان کولمبس سے کئی صدیاں پہلے امریکہ پہنچے تھے ۔ڈاکٹر بیری نے امریکہ کے کئی علاقوں ،مثلاویلی آف فائر ،الن سپر نگز ،لوگو مارسینو ،کینیون واشوئے اورہکی سن سمٹ پاس ، میساورڈے ،نیومیکسیکو کی ممبر ویلی اورانڈیانا کے پٹرکینو ئے میں 700 ء  تا 800میں تعمیر کردہ مسلم سکولوں کے آثار دریافت کئے ہیں ۔اس نے مغربی امریکہ میں چٹانوں اورپتھروں پرکنندہ اسباق ،تصاویر اورنقشے دیکھے جواس علاقے میں قائم نظا م تعلیم کوظاہرکرتے تھے دونوں قسم یعنی ابتدائی اوراعلیٰ سطح کاتھا ۔ 

تعلیمی زبان شمالی افریقہ کی عربی زبان تھی جوپرانے کوفی عربی میںلکھی ہوئی تھی ۔نصاب تعلیم میں لکھنا ،پڑھنا ،حساب ،مذہب ،تاریخ ،جغرافیہ ،علم ریاضی ،علم جہاز رانی اور فلکیات وغیرہ شامل تھے ۔ قدیم فن کے بے شمار نمونوں کے مطالعہ سے انکشاف ہواکہ سنگ تراشی کے کئی نمونوں میں عربی خصوصیات ہیں ۔دیواری تصاویر ،نقش  ونگار اورسکوں پرہلال کے نقش بھی نمایاں ہیں ۔اس کے علاوہ رسوم ورواج کامطالعہ بھی شہادت دیتاہے کہ مسلمان صدیوں پہلے اس علاقے میں آئے تھے ۔شمالی امریکہ میں آنے والے مسلمانوں کی اولاد آج ریڈ انڈینزکے مختلف قبائل مثلاعرو قیوئس ،الکنقوئن ،اناسازی ، ہو ہو کم اوراولمک باشندوں میں جذب ہوچکی ہے۔

6۔امریکہ اورکینیڈا میں 565جگہوں (دیہات،قصبوں ،شہروں ،پہاڑوں ،ندیوں ،دریائوں وغیرہ) کے نام ،اسلامی اورعربی اسماء والفاظ سے ماخوذ ہیں ۔امریکہ میں ایسے 484اور کینیڈامیں 81نام ہیں ۔ ان جگہوں کے نام کولمبس سے پہلے یہاں کے اصل باشندوں نے رکھے تھے۔ ان میں سے بعض نام مسلمانوں کے نزدیک مقدس ہیں ۔ مثلاانڈیا نا میں ایک گاؤں کانام مکہ ہے ۔واشنگٹن میں ریڈ انڈین قبیلہ مکہ ، مدینہ 2100(اداہو) مدینہ 8500(نیویارک ) مدینہ 1200001100(اوہیو) وغیرہ وغیرہ ۔ریڈانڈین قبائل کے ناموں کے بغور مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کے کئی نام عربی سے ماخوذ ہیں مثلااپاچی ،ہو یا، کری ، اراوالک ،لانی ،زمرلو، مہاوروغیرہ ۔.


ودود اللہ تعالیٰ کے صفائی ناموں میں سے ہے۔ جو بندہ اسے اس اسم صفت سے یاد کرتا ہے اللہ اسے اپنی محبت سے نواز دیتا ہے۔ دین و دنیا میں اپنی نعمتوں سے مالا مال کر دیتا ہے۔ حضرت فضل شاہ اللہ تعالیٰ کے وہ برگزیدہ انسان تھے۔ کہ اللہ تعالیٰ کو ودود کے نام سے یاد کیا اور ایسا یاد کیا کہ ساری عمر یا وَ دُودُ یا وَدُودُ کہتے ہوئے گزار دی اس کا انعام یہ ملا کہ اللہ نے انہیں دین و دنیا میں سر بلندی عطا کی۔ ان کی دعا کو مجیب الدّعوات کیا۔
 
حضرت فضل شاہ نور والے ؒ

نام و نسب
حضرت قطب عالم فضل شاہ کے آباؤ اجداد بکیریاں ضلع ہوشیار پور کے رہنے والے تھے آپ کے والد ماجد حضرت نبی بخش بھی ہوشیار پور میں رہتے رہے لیکن ایک وقت آیا وہ ہوشیار پور کو چھوڑ کر جالندھر آگئے اور وہاں پر سکونت اختیار کرلی۔ آپ کے والد انتہائی نیک اور صالح انسان تھے طریقت میں حضرت شاہ محمد غوث کے مرید تھے۔ آپ کی والدہ کا نام عمربی بی تھا دونوں میاں بیوی کےشب روز یاد الہٰی میں گزرتے تھے۔آپ کے والد نے آپ کا نام فضل الدین رکھا۔ آپ کے والد کے پیر ہوشیار پور میں رہتے تھے چنانچہ آپ کے والد جب کبھی اپنے مرشد کی خدمت میں جاتے تو آپ کو ساتھ لے جاتے ۔ حضرت شاہ محمد غوث آپ سے بڑا پیار کیا کرتے تھے اور پیار سے کہا کرتے تھے کہ یہ میرا بیٹا فیضی شاہ ہے وقت کا قطب ہوگا ۔ بے شمار مخلوق خدا اس سے فیض یاب ہوگی ۔چنانچہ والد کے مرشد کی دعا پوری ہوئی اور آپ صاحب فضل ہوئے ۔

مرشد سے ملاقات
آپ کے زمانے میں جالندھر سے دو میل کے فاصلے پر ایک بزرگ کا مسکن تھا ان کا نام خدا بخش تھا جو سلسلہ قادریہ کے پیر طریقت تھے۔ نہایت ہی متقی پرہیز گار اور شب بیدار تھے۔ ایک روز آپ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت دوسرے لوگ بھی ان کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے۔ جب آپ پہنچے تو انہوں نے فرمایا کہ بیٹا ہم بڑے دنوں سے تمہارا انتظار کر رہے ہیں ان الفاظ پر آپ رو پڑے اتنے میں انہوں نے آپ کو سینے سے لگا لیا پھر شفقت سے اپنے پاس بٹھا لیا۔ 
چودہ سال تک آپ اپنے پیرو مرشد کی خدمت میں رہے آخر جب آپ ہر طرح حصول معرفت میں مکمل ہو گئے انہوں نے آپ کو خرقہ خلافت عطا فرمایا ۔پیر و مرشد کی صحبت سے آپ کے کردار میں چار خوبیاں یعنی قول صادق ،علم باطن ،عمل صالح اور اخلاص نیت پیدا ہوئیں۔ مرشد سے اجازت کے بعد آپ جالندھر اپنے گھر میں رہنے لگے اورکچھ عرصہ بعد پاکستان قائم ہو گیا تو والد محترم کے اصرار پر آپ نے پاکستان کی طرف ہجرت کیلئے سوچا لیکن آپ نے اپنی مشکلات اور پریشانیوں کو بالائے طاق رکھ کر پریشان حال لوگوں کی مدد کی پھر مہاجرین کے کیمپ میں چلے گئے اور وہاں بھی خدمت خلق میں مصروف رہے آخر کار مہاجر کیمپ کے ذریعے آپ پاکستان آگئے اور ماموں کانجن میں قیام کیا کیونکہ وہاں آپ کے معتقد رہتے تھے اور ان کے کہنے پر آپ وہاں رہے ۔ آپ جتنا عرصہ رہے آپ لوگوں کو اللہ کا راستہ بتاتے رہے۔

لاہور آمد
 ۱۹۵۳ء میں آپ لاہور تشریف لے آئے ۔ حضرت میاں میرؒ کے قریب انفنٹری روڈ پر برلب سٹرک آپ نے قیام فرمایا اور آخری دم تک یہاں طالبان حق کی رہنمائی میں مصروف رہے ۔ آپ کا معمول تھا کہ آپ کے پاس جو شخص بھی آتا آپ اس کی حتی الوسع مہمان نوازی کرتے اور آپ کا خاصا تھا کہ آپ کے ڈیرے پر تینوں وقت لنگر عام تھا۔ اور جمعرات کو نماز مغرب کے بعد لنگر کا خاص اہتمام کیا جاتا۔آپ کی خوراک اور لباس بہت سادہ تھا۔ جو زائرین کیلئے لنگر تیار کرتے اسی سے خود بھی تناول فرماتے ۔ لباس کی سادگی کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ جس لباس کے پہننے میں غرض و غائت اور خواہش نہ ہو وہ لباس پاک ہے لہذا کرتا اور تہبند کا زیادہ استعمال کرتے تھے۔ آپ کا حلیہ مبارک یوں تھا کہ۔ آپ کا قد میانہ تھا جسم فربہ ہاتھ پاؤں مضبوط تھے سر کے بال منڈوا کر رکھتے تھے اور سر پر سبز رنگ کی ٹوپی پہنا کرتے تھے۔ 

تصنیفات
 آپ ظاہراً کسی مکتب یا کسی استاد سے نہ پڑھے لیکن آیات قرآنی کی ایسی تفسیر بیان کرتے کہ بڑے بڑے اہل علم ان نقاط تک نہ پہنچ پاتے تھے اور آپ علم تصوف کے بارے میں علم لدنی کی روشنی میں بات چیت کیا کرتے تھے۔ انہی باطنی نقاط پر آپ کی ایک کتاب انوارِ فاضلی ہے جو طبع شدہ ہے۔ڈاکٹر اشرف فاضلی نے آپ کے وصال کے بعد آپ کی تفسیر قرآن مرتب کر کے شائع کی جو آپ ڈاکٹر اشرف فاضلی کو لکھوایا کرتے تھے جو تفسیر ِ فاضلی کے نام سے مشہور ہے ۔

 شادی اور اولاد
 آپ نے چالیس سال کی عمر میں شادی کی اورشریک حیات کے ساتھ تیس سال ازدواجی زندگی بسر کی اس دوران میں آپکے ہاں پانچ صاحبزادے اور دو صاحبزادیاں تولد ہوئیں ایک لڑکا اور ایک لڑکی بچپن ہی میں فوت ہو گئے ۔

عقیدت مند
مریدیین اور عقیدت مندوں کی ایک بڑی تعداد پڑھے لکھے خواتین و حضرات کی تھی جو بعد میں علم و معرفت کی مسند پر فائز ہوئے ان میں سے چند کے نام یہ ہیں مشہور افسانہ نگار اشفاق احمد ان کی بیگم بانو قدسیہ ، سابق وزیر اعلیٰ پنجاب محمد حنیف رامے ،نواز رومانی ،یوسف اختر صدیقی ،قدرت اللہ شہاب ،ممتاز مفتی ،ڈاکٹر اشرف فاضلی ،حضرت واصف علی واصف ؒ اور دیگر نے آپ سے اکتسابِ فیض کیا ۔

وصال 
آپ کے اس دار فانی سے جانے کا وقت جب قریب آگیا تو آپ بھگندر کے مرض میں مبتلا ہوئے۔ کچھ عرصہ انتہائی تکلیف میں گزارا لیکن بیماری کے باوجود بھی آپ بیماری کے ابتدائی ایام میں معمول کے مطابق حاجت مندوں کی فیض رسائی میں مصروف رہے لیکن آخر مرض زور پکڑ گیا۔ اور چالیس دن کی علالت کے بعد بروز اتوار ۲۳ شعبان المعظم ۱۳٩٨ء بمطابق ۳۰ جولائی ۱۹۷۸ء کو خالق حقیقی سے جاملے ۔ آپکو ڈیرہ پر ہی دفن کیاگیا۔ آپ کا ڈیرہ نور والوں کا ڈیرہ کے نام سے مشہور ہے۔

 مزار مبارک اور عرس 
 آپ کا مزارپُر انوار انفنٹری روڈ دھرم پورہ لاہور درگاہ حضرت میاں میرؒ کے قریب بر لب سٹرک مرجع خلائق ہے۔ اصل قبر نیچے تہہ خانہ میں ہے اور اوپر قبر کا تعویز مبارک بنا ہوا ہے۔آپ کا عرس ہر سال 22 ،23،24 شعبان المعظم کو ہوتا ہے ۔

خلافت 
آپ کے وصال کے بعد آپ کے بڑے صاحبزادے حضرت پیر رضا حسین بلالی جمالی مسند خلافت پر مخلوق خدا کی خدمت کرتے رہے ۔آج کل آپ کے ڈیرہ پر سجادہ نشینی کے فرائض آپ کے پوتے حضرت فضل
و دود صاحب فاضلی قادری سر انجام دے رہے ہیں ۔جن کے بارے میں بابا جی سرکار نے پیدائش سے آٹھ سال قبل آپ کے والد پیر رضا حسین بلالی جمالی کو کہہ دیا تھا آپ کے ہاں بیٹا پیدا ہو گا اور اس کا نام فضل ودود رکھنا ۔میرے اس بادشاہ پُتر کو لوگ سائیں فضل شاہ ہی کہیں گے ۔

حوالہ جات 
سیارہ ڈائجسٹ "اولیا کرام نمبر 3
ماہنامہ سبیل ہدایت لاہور ستمبر 2006مضمون نگار "نواز رومانی "
ماہنامہ سبیل ہدایت لاہور ستمبر 2007مضمون نگار علامہ عالم فقری 
اولیاء لاہور،، علامہ عالم فقری،، شبیر برادرز اُردو بازار لاہور  
اخص الخواص ،مصنف نواز رومانی