نورانیت مصطفی

نورانیت مصطفی



میرے نزدیک یہ سوال ہی جہالت کی پیداوار ہے کہ حضور ﷺ نورہیںیابشر ؟ کیونکہ نور کی ضدبشرنہیں اورنہ بشرکی ضد نور ہے یہ توایسے ہی ہوا جیسے کوئی پوچھے بتاﺅ وہ فلاں شخص کالاتھا یاٹھنگنا ؟اسے کہا جائے گا کہ بھئی کالے کامتضاد ٹھنگنا نہیں سفید ہے اورٹھنگنے کی ضد کالانہیں لمبا تڑنگا ہے یااگرکوئی پوچھے کہ فلاں صاحب پڑھے لکھے ہیںیااپاہج ؟تواس سے کہا جائے گا ارے نادان ! پڑھے لکھے کامتضاد جاہل ہے اوراپاہج کامتضاد تندرست وتواناہے ۔بعینہ اگر حضور رحمت عالم ﷺ کے بارے میں کوئی سوال کرے کہ بتاﺅ حضور ﷺ نور ہیں یا بشر؟ توہم کہیں گے تمہارا یہ سوال ہی غلط ہے کیونکہ نور کی ضد بشر نہیںظلمت ہے اوربشر ضد نورنہیں بلکہ جن یافرشتہ ہے۔اس وضاحت کے بعد اس سے کہوکہ اب سوال کرو کہ نعوذ بااللہ حضور ﷺ نورہیںیاظلمت؟یا حضورﷺ بشر ہیںجن یافرشتہ ۔

میرے خیال میں احمق سے احمق ترین شخص بھی یہ سوال لب پر نہ لاسکے گا وہ اپنی تمام تر خباثت نفسی و باطنی کے باوجود یہ سوال کر ہی نہیں سکے گا۔ تو نتیجہ یہ ہوا کہ حضور ﷺ ظلمت نہیں نور ہیں۔ اسی طرح حضور نبی کریم ﷺ فرشتے یاجن نہیں بلکہ بشر اورانسان ہیں گویا حضور نبی رحمت ﷺ نوربھی ہیں بشر بھی ہیںیعنی آپ بے مثل اوربے مثل نوری بشر ہیں۔

ہمارے نزدیک حضور پر نور شافع یوم النشورﷺ کی ذات ستودہ صفات کے بارے میںنور ہونے کامطلب ہرگزیہ نہیںکہ حضور سرورکائنات ﷺ نعوذباللہ تعالی کے نور کاٹکڑا ہیں اورنہ ہی ہماراعقیدہ ہے کہ حضور نبی الابنیاءﷺ کی ذات کے نور کامادہ اللہ تعالی کانور ہے العیاذباللہ۔اوراس کایہ مفہوم بھی ہرگز نہیں کہ حضور پرنورشافع یوم النشور ﷺ کانور اللہ تعالی کے نور کی طرح ازلی وابدی ہے اوراس کا یہ مفہوم بھی نہ سمجھا جائے کہ اللہ تعالی حضور ﷺ فداہ امی وابی الفاً الفاً کی ذات میں سرائیت کرگیاہے۔یہ جملہ امورغلط فہمی کی پیداوار ہیںجبکہ حقیقت حال یہ کہ حضور نبی کریم رﺅف رحیم ﷺ کی ذات کے نور ہونے کامفہوم یہ ہے کہ حضور پرنور ﷺ اللہ تعالیٰ کی ذات سے بلاواسطہ فیض لینے والے ہیں جیسے ایک چراغ سے دوسرا چراغ جلاکر پھر اس چراغ سے آگئے ہزاروں لاکھوںچراغ جلالئے جائیں یاایک آئینہ سورج سے بلاواسطہ چمک حاصل کرتا ہے اس کادوسرا رخ اندھیرے کمرے میںپڑے ہزاروں آئنیوں کی طرف بھی ہوتو وہ اس سورج سے بالواسطہ نور لے کرروشن ہوجائیں گے۔اب ظاہر ہے کہ پہلے آئینے میںسورج نے نہ توسرایت کیا ہے اورنہ حلول کیاہے اس کے باوجود اگر یہ آئینہ درمیان میںسے ہٹا دیاجائے تو باقی آئینے پھراندھے کے اندھے ہوکررہ جائیں۔اگر پوری کائنات میںبے حدو عدوعلم وفضل کے چراغ روشن ہیںتوصرف یہ اسی آئینہ حق نما ﷺ کی موجودگی کااحساس دلاتے ہیں۔وہ آئینہ آج بھی اسی طرح ذات باری تعالیٰ سے فیض یاب ہوکرپوری کائنات کومنور کررہا ہے ۔

نورکودوطرح سے سمجھا جاسکتا ہے ایک نور حسی جسے آنکھوں سے محسوس کیاجاسکتا ہے جیسے دھوپ ،چاندنی ،روشنی ، بجلی اورچمک وغیرہ ۔یہ اجالابھی نور ہی کہلاتا ہے اوراسے ہر آنکھ والااورچشم بینا والامحسوس کرتا ہے ۔دوسرا نورعقلی ہے جسے آنکھ سے محسوس تونہ کیاجاسکے البتہ عقل تسلیم کرتی ہے کہ یہ نور ہے جیسے علم وفن ،ہدایت وراہنمائی ،حقیقت ومعرفت کی پہچان ،دین اسلام،کتا ب ہدایت ،تجربات فہم وبصیرت ،یہ ایسا نور ہے جوصرف دل بینا کونظر آتا ہے اوراس نور کوصرف صاحب بصیرت ہی دیکھ سکتا ہے۔ جاہل وعالم میں کیا وجہ امتیاز ہے ۔تجربہ اورناتجربہ کاری میں کیافرق ہے۔دین اوربے دین میںکیا وجہ امتیازہے ۔یہ فرق کرسکنا بھی نورہے ۔آنکھ کوتوبظاہر ان میں کوئی وجہ امتیا زاورکوئی فرق نظر نہیںآتا دونوں کے اعضاءجسمانی ایک سے ہیںدونوں کاانداز گفتگورا ورفتار ایک سی ہے ۔اس لئے ایک جاہل مطلق شخص ان دوحقائق میںفرق نہیںکرسکتا اس نور کوتوصرف کوئی نوروالا ہی پہچان سکتا ہے۔ نور کی ایک صفت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ خود بھی ظاہر ہوتا ہے اوردوسروں کوبھی ظاہر کرتاہے۔یہ صفت نورحس اورعقلی دونوں کی ہے۔سورج ،چاند ،ستارے ،بجلی ،چراغ ،شمع خود بھی منور ہیںاور دوسروں کوبھی منور کرتے ہیں۔اندھیرے چھٹ جاتے ہیں،ظلمتیں کافور ہوجاتی ہیں،۔یہ نور حسی ہے ۔یہ نوربھی صرف دیدہ بینا والے کو نظر آتا ہے۔
دیدئہ کورکیا آئے نظر کیا دیکھے

دوسرا نورعقلی، عالم فاضل،صاحب فن ،صاحب تقویٰ یادنیاوی اعتبار سے تجربہ کارخود بھی آگاہ ہوتا ہے اوروہ اس آگاہی کے نور کوآگے بھی پھیلاتا چلاجاتا ہے اورچراغ سے چراغ روشن ہوتے چلے جاتے ہیں۔کیااس ہدایت وراہنمائی کونورنہیں کہاجاسکتا اوراس نورکوبھی وہی دیکھ سکتا ہے جواس وادی میںقدم رکھنے والا ہو ۔ایک جاہل مطلق کے لئے اس مینارئہ نورمیںاورایک عام انسان میںکوئی وجہ امتیازنظر نہیں آئے گی۔

یہ نورابوجہل کو،ابولہب،عتبہ وشیبہ کو نظر نہیں آیا ۔ یہ نور صرف حضرت عباس رضی اللہ عنہ کونظر آیا انہوںنے دیکھا ،جانا پہچانااورپسند کیا ۔پھر اسی نور سے ان کی راہیں منور ہوئیں۔ذرا آئیے دیکھیںوہ کس طرح اس نور کی عظمت کااعتراف کرتے ہیں۔
وَاَنتَ لَمَّا وَلَد تَّ اَشرَاقَتِ
اَلاَرض وَضَاعَت بِنورِ کَ الا فَقِ
فَنَحن فِی ذَالِکَ الضِّیَائ وَفِی النّورِ
سَبِیل الّرِشَادِ نَحتَرِق
یعنی آپ جب پید اہوئے توآپ کے نور سے زمین وآسمان کے کنارے چمک اٹھے تو ہم اسی نورسے منور ،روشنی میںبستے ہیں اوراسی نور سے ہدایت کے راستے تلاش کرتے ہیں کیا زمین وآسمان کے کنارے آپ کی ولادت باسعادت سے روشن ومنور ہوتے ہوئے عرب کے ان ہزاروں انسانوں کونظر آئے ؟جن کو آپ کوہدایت نصیب نہیں ہوئی ۔

نہیں ہرگز نہیں ایسے لوگ کونہ جب نظر آئے تھے اورنہ آج آرہے ہیں حالانکہ دیکھنے والے جب بھی دیکھتے تھے اورآج بھی دیکھ رہے ہیں کہ آپ کی ولادت باسعادت سے پوری کائنات منور ہوئی تھی اورآج بھی منور ہے اورتاقیامت رہے گی ۔آپ نے اپنے پرودرگار عالم کے فیض نور سے فیض یاب ہوکر نوربصیرت حاصل کیا پھر جوآپ کے قریب آیا وہ خود بھی روشنی کامینار بنتاچلاگیا وہ نور آج بھی چاردانگ عالم میںاپنے نور کااجالا پھیلاتاہوا نظر آتا ہے اس نور کودیکھنے کے لئے ابوجہل ،ابولہب ،عبداللہ ابن ابی کی آنکھ نہیں،بلال حبشی ،صہیب رومی ،سعدبن وقاص اور آل یاسر کی آنکھ کی ضرورت ہے (رضوان اللہ علیہم اجمین) ۔اس آنکھ سے دیکھنے والا اگر آج کوئی پیدا ہوجائے توفوراً پکاراٹھے گا۔
ساعت ذکر پاک رسول آگئی سارے عالم پہ اک کیف چھانے لگا
مطر بان ازل زمزمہ سنج ہیں روح کونین کووجد آنے لگا
ان کی آمد کے پھر تذکرے چھڑگئے ذکر میلادپھردلبھانے لگا
گلستان گلستان پھر بہار آگئی پھر چمن کاچمن مسکرانے لگا

ان کیفات میںڈوب کردیکھنے والوں میںسے چند ایک اورعظیم شخصیات کے احساسات ملاحظہ فرمائیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ حضور نبی کریم ﷺ کے چہرہ انور میںنور جیسی چمک تھی ۔حضرت ہندبن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ کاقول ہے کہ آپ کاچہرہ مبارک چودھویںرات کے چاند کی طرح چمکتا تھاﷺ حضرت ربیع ابن معوذرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر تم آپ ﷺ کودیکھتے توایسامحسوس کرتے یہ گویا سورج نکل آیا ہے ۔حضرت عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں”وچوں آںحضرت عین نور باشد۔نور راسایہ نمی باشد“یعنی چونکہ آپ عین نورتھے اورنور کاسایہ نہیں ہوتا ﷺ حضرت ملاعلی قاری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آپ کواللہ تعالی نے اپنی کتاب میںنور فرمایا ہے۔حضرت امام بوصیری رحمتہ اللہ علیہ قصیدہ بردہ شریف ،میں اپنے کریم آقا ﷺ کے حضور میں اپنی عقیدتوں کے پھول یوں پیش کرنے کااعزاز حاصل کرتے ہیں۔
فَِانَّکَ شَمس فَضلِِ ھُم کَوَاکُِبھَا
یُظھِرُونَ اَنوَارَھَا لَلنَّاسِ فِی الظلّمِ
یعنی اے اللہ کے پیارے رسول ﷺ آپ فضل وکرامت کے سورج اورجملہ انبیاءکرام آپ کے ستارے ہیںجوآپ ہی کانورلوگوں کے لئے اندھیروں میںپھیلارہے ہیں ۔حضرت علامہ جلال الدین رومی رحمتہ اللہ علیہ مثنوی شریف میںنورانیت مصطفوی ﷺ یوں بیان کرتے ہیں۔
عکس نور ہمہ نوری بود
عکس دورازحق ہمہ دوری بود
یعنی اللہ تعالی کے نورکاسایہ بھی نور ہوتا ہے جوخدا سے دور ہوجائے ان کاسایہ بھی دورہوتا ہے ۔
این خورد گرد پلیدی زیںجدا
آںخورگردو ہمہ نورخدا
یہ جوکچھ کھاتے ہیں اس سے ناپاکی ظاہر ہوتی ہے اور وہ جوکچھ کھاتے ہیں وہ سب نور بن جاتا ہے ۔
حضرت امام احمد بن محمد عسقلانی رحمتہ اللہ علیہ نورانیت مصطفوی ﷺ کوبیان کرتے ہیں” اللہ تعالی نے فرمایا اے آدم اپنا سراونچا اٹھا انہوں نے انپا سراوپر اٹھایاتوعرش کے پردوںمیں ایک نوردیکھا ۔عرض کیا اے مولا! یہ نور کیسا ہے؟فرمایا یہ ایک نبی کانورہے جو تمہاری اولاد میںسے ہوں گے ان کااسم گرامی آسمانوں پر احمد ﷺ ہے اوزمین پر محمد ﷺہے ۔اگر وہ نہ ہوتے تو ہم نہ آپ کوپیدا کرتے اورنہ آسمان کواورنہ زمین کو“
مولانااشرف علی تھانوی نشرالطیب میںاپنے جذبات کااظہاریوں کرتے ۔
”پہلی فصل نورمحمدی کے بیان میں“
ٓ اس فصل میں نورانیت مصطفوی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے متعلق تمام احادیث تحریر کرتے ہیں جواہل سنت اکثر وبیشتر بیان کرتے رہتے ہیں مثلا
۱۔ پہلی روایت : عبدالرزاق نے اپنی سند کے ساتھ حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہماسے روایت کیا ہے کہ میںنے عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ پرفدا ہوںمجھ کوخبر دیجئے کہ سب اشیاءسے پہلے تعالیٰ نے کون سی چیز پیدا کی ۔آپ نے فرمایا کہ اے جابر ! اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاءسے پہلے تیرے نبی کانور اپنے نور سے (نہ بایں معنی کہ نورالہیٰ اس کا مادہ تھابلکہ نور فیض سے) پیدا کیا۔پھر وہ نورقدرت الٰہیہ سے جہاںاللہ تعالیٰ کو منظور ہواسیرکرتا رہااس وقت نہ لوح تھی نہ قلم اورنہ بہشت اورنہ دوزخ تھا اورنہ فرشتے تھے اورنہ آسمان تھا ۔پھر جب اللہ تعالی نے مخلوق کوپیدا کرناچاہاتو اس نور کے چاربرابر حصے کئے اورایک حصے سے قلم پیدا کیااوردوسرے سے لوح اورتیسرے سے عرش ،آگے طویل حدیث ۔(نشر الطیب ذکر النبی الحبیب تاج کمپنی لاہورکراچی(۲۵۲،۳۵)۔

حوالہ بالامیں دونوں قوسوں کے درمیان جوعبارت ہے۔(نہ بایںمعنی کہ نورالٰہی اس کامادہ تھابلکہ اپنے نور کے فیض سے)بالکل یہی تصور عقیدہ اہل سنت وجماعت کے طورپر ہم سابقہ سطورمیںبیان کرآئے ہیں۔
۲۔پانچویںروایت : احکام ابن القطان میںمنجملہ ان روایات کے جوابن مرزوق نے ذکر کی ہیں۔حضرت علی بن الحسین (یعنی امام زین العابدین )رضی اللہ عنما سے روایت ہے وہ اپنے باپ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اوروہ ان کے جد امجد یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں کہ بنی ﷺ نے فرمایا کہ آدم علیہ اسلام کے پیداہونے سے چودہ ہزار برس پہلے اپنے پرودگارکے حضور میں ایک نورتھا صفحہ ۸،۹۔

مزید آگے چل کرحضرت عباس رضی عنہ نے عم رسول ﷺ کاقصیدہ تحریرکیاہے جس کاایک شعر ہم گزشتہ سطور میںبیان کرآئے ہیں اورقصیدہ بردہ شریف کے اشعاربھی نقل کئے ہیں جن کاذکر گزشتہ سطور میںمادہ تھا بلکہ نور کے فیض سے ) پیدا کیا ۔پھر وہ قدرت الٰہیہ سے جہاں اللہ تعالی کومنظورہواسیر کرتا رہا ۔اس وقت نہ لوح تھی قلم اورنہ بہشت اورنہ دوزخ تھا اورنہ چاند تھا اورنہ جن تھا اورنہ انسان تھا ۔پھر جب اللہ تعالی نے مخلوق کوپیدا کرناچاہا تواس نور کے چارحصے کئے اورایک حصے سے قلم پیدا کیا اوردوسرے سے لوح اورتیسرے سے عرش آگے طویل حدیث ہے۔
(نشر الطیب ذکر النبی الحبیب تاج کمپنی لاہور ،کراچی ۲۵۲،۳۵)چوتھی فصل : آپ کے نور مبارک کے بعض آثار کے ظاہرہونے میںآپ کے والد ماجد جدامجد ہیں ۔اس فصل میںپہلی حدیث ملاحظ فرمائیں ۔

پہلی روایت حافظ ابوسعید نیشاپوری ابی بکر بن ابی مریم اورانہوں نے سعید بن عمر و انصاری سے اورانہوںنے اپنے باپ سے اورانہوں نے کعب احبار سے ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کانورمبارک جب عبدالملطب میںمنتقل ہواوروہ کچھ جوان ہوگئے توایک دن حطیم میںسوگئے ۔جب آنکھ کھلی تودیکھا آنکھ میںسرمہ لگا ہوا ہے ،سرمیںتیل پڑا ہے اورحسن وجمال کالباس زیب تن ہے ان کوسخت حیرت ہوئی کہ کچھ معلوم نہیںیہ کس نے کیا ہے۔ان کے والد ان کاہاتھ پکڑکر کاہنان قریش کے پاس لئے گئے اورسارا واقعہ بیان کیا۔انہوںنے جواب دیا معلوم کرلو کہ رب السمٰوٰات نے اس نوجوان کونکاح کاحکم فرمایا ہے۔ چنانچہ انہوںنے فاطمہ سے نکاح کیااوروہ عبداللہ آپ کے والد ماجد کے ساتھ حاملہ ہوگئیں اورعبدالمطلب کے بدن سے خوشبو آتی تھی اوررسول اللہ ﷺ کانوران کی پیشانی میںچمکتا تھااورجب قریش میںقحط ہوتا توعبدالمطلب کاہاتھ پکڑ کرجبل شبیر کی طرف لے جاتے تھے اوران کے ذریعے سے حق تعالیٰ کے ساتھ تقریب ڈھونڈتے اوربارش کی دعاکرتے تواللہ تعالی بہ برکت نورمحمدی ﷺکے باران عظیم رحمت فرماتے ۔۔۔الخ کذافی المواہب صفحہ ۰۲۔
اس عبارت میں غور فرمائیں یہ ہیں و ہ مبارک الفاظ جن کی ادائیگی کے”جرم“میں اہل سنت وجماعت موردالزام ہیں
تیری زلف میںپہنچی توحسن کہلائی
وہ تیرگی جومیرے نامہ سیاہ میں ہے
مولانااشرف علی تھانوی صاحب اپنی کتاب ثلج الصدور میں لکھتے ہیں۔
درشعاع بے نظیرم لاشوید
ورنہ پیش نورمن اسواشوید
اپنی کتاب کے ایک مقام پرلکھتے ہیں
نبی خود نور اورقرآن ملانور
نہ ہو پھر مل کیوںنور علی نور
حضرت شاہ عبدالرحیم رحمتہ اللہ علیہ حضرت شاہ ولی رحمتہ اللہ علیہ کے والد ماجد ”انفاس رحیمیہ“میںتحریر فرماتے ہیں۔
”فرش سے عرش تک اوراعلی فرشتے اسفل کی جنس سب کے سب حقیقت محمد یہ سے پیدا ہوئے ہیں ۔حضور ﷺ کافرمان ہے سب سے پہلے اللہ تعالی نے میرے نور کوپیدا فرمایا ۔اگر آپ نہ ہوتے تواللہ تعالی نہ آسمانوں کوپیدا کرتا اورنہ ہی اپنی ربوبیت کوظاہر کرتا “
مولانا حسین احمد صاحب ”الشہاب الثاقب “ میںلکھتے ہیں۔
”ہمارے حضرات اکابر کے اقوال وعقائد کوملاحظ فرمائیے ۔یہ جملہ حضرات حضور پرنور علیہ السلام کو ہمیشہ سے ہمیشہ تک واسطہ فیوضات الہٰیہ وسراب رحمت غیر متناہیہ اعتقاد لئے بیٹھے ہوئے ہیں۔ان کاعقیدہ یہ ہے کہ ازل سے ابدتک جورحمتیں عالم پرہوئی ہیں اورہوں گی ۔عام ہے وہ نعمت وجود کی ہویا کسی اورقسم کی ان سب میںآپ کی ذات پاک اسی طرح واقع ہوئی کہ آفتاب سے چاند وجود میں آیا اورچاند سے نور ہزاروں آئینوں میںغرض کہ حقیقت محمد یہ واسطہ جملہ کمالا ت عالم وعالمیان ہیں۔
یہ ہی معنی لولاک لماخلقت الافلاک اوراول ماخلق اللہ نوری وانانبی الانبیا ءکے ہیں “۔

مولانارشید احمد گنگوی صاحب ”امدادالسلوک “میں لکھتے ہیں۔اس سبب سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نوراورکتاب مبین آئے ۔نور سے مراد حبیب خدا ﷺ کی ذات پاک ہے۔نیز حق تعالی فرماتا ہے کہ اے نبی ﷺ ہم نے آپ کوگواہ اوربشیر ونذیر اللہ تعالی کی طرف بلانے والا چمکانے والا سورج بناکر بھیجا ۔منیر رو شن کرنے اورنوردینے والے کو کہتے ہیں“
ایک مقام پراسی کتاب میںتحریر کرتے ہیں۔
”حضور ﷺ بھی حضرت آدم کی اولاد مگر نبی ﷺ کواس طرح پاک فرمالیا کہ آپ خالص نور ہوگئے اوراللہ تعالی نے آپ کونور فرمایا ۔یہ حدیث ہوچکی ہے کہ حضور ﷺ سایہ نہ رکھتے تھے اورظاہر ہے نور کے سوا تمام جسم سایہ رکھتے ہیں “

گویاہم ان برزگان دین کے عقائد اورنظریات سے اس نتیجہ پرپہنچے کہ نوروہ نور جوخود ظاہر ہواور دوسروں کوبھی ظاہر کرے ۔حضور نبی کریم ﷺ خود ایسے ظاہر کہ انہیں بحر وبر،خشک وتر ،شجر وحجر ،آسمان کاہرستارہ زمین کاہرذرہ پہچانتا ہے ۔انسان انہیں جانیں،جانورانہیں پہچانیں ،کنکروں کوان کاکلمہ ازبر ہو ،پتھران کی گواہی دیں۔غرض کہ حضور ﷺ خود ایسے چمک چمک اٹھے مدینہ منورہ کی گلیاںحضور ﷺ سے چمکیں ،مکہ مکرمہ کے کوچہ وبازارآپ سے چمکے ،خانہ کعبہ کے درودیوار ،نقش ونگار آپ ہی سے جگمگائے۔آپ ہی کے وسیلہ سے آپ ہی کی نسبت سے بلکہ آپ ہی کی وجہ سے حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے نصیب چمکے کہ دنیا ان کی عظمت کے گیت گارہی ہے۔
بڑی تونے توقیر پائی حلیمہ
کہ ہے تومحمد ﷺ کی دائی حلیمہ

اندھا راستہ دکھا نہیںسکتا کہ وہ خوداندھاہے راستے سے بے خبر ہے۔غافل کسی کا راہبر نہیںبن سکتا کہ غافل جوٹھہرا ۔جاہل علم کی روشنی نہیںبانٹ سکتا کہ وہ خود اس نعمت عظمیٰ سے محروم ہے ۔خود سونے والا دوسروں کوکیسے جگاسکتا ہے۔بلاشبہ ساری کائنات انسانی ازآدم ایںدم فطرتاً روشنی کی متلاشی ہے ۔اس روشنی کے بانٹنے کافرض اللہ تعالی نے انبیاءکرام کے سپرد کیا اوریہ انبیا ءکرام خود اس منصب پرفائز نہیںہوئے اورنہ کوئی اپنی کسب وہمت سے اس منصب پرفائز ہوسکتا ہے بلکہ خود خالق کائنات خالق انسانیت نے اندھیروںسے نکال کرروشنی میںلانے ،پھراس سے انہیںروشن کرنے اوران کوروشنی کامینار بنانے کے لئے انبیاءکرام کواس مرتبہ جلیلہ پرفائز کیا۔ لہذا ان انبیاءکرام کواس عظیم منصب کے حوالہ سے جس جس جبلت کی ان کے دورمیںضرورت تھی وہ بدرجہ اتم خود ان میںپیدا کردی ۔انہیںعام انسانوں سے ہراعتبار سے ممتاز کیا۔ ان کی سیرت ،ان کاکردار ،ان کی صورت ، انکی نشست وبرخاست ،خوردونوش ،آمدورفت غرض کہ ہر نبی ہر اعتبار سے اموکھااورنرالہ ہے ۔یہ صفات بھی خود ان کی اپنی ذات میںاپنی پیدا کردہ نہیں ہیں بلکہ خود خالق ارض وسمانے ان میںپیدا کی ہیں ۔یہ کفر وضلالت ،جہالت وگمراہی میںبھٹکنے والوں کومِنَ الظّلُمٰت ِ اِلَی النّورِ لانے والے کیاخود بے نور تھے ؟ نعوذ باللہ ہرگز نہیںوہ نور تھے ۔سراپانور تھے اورہونا بھی چاہئے تھااگر ایسا نہ ہوتا توفطرت کے بالکل خلاف ہوتا ۔

یہی وجہ کہ سب اہل علم سب اہل سنت ونبی آخرالزمان ،رحمت کائنات ،معلم علم و حکمت حضرت محمد ﷺ کوعقیدة نورسمجھتے ہیںاورخدا نخواستہ وہ نور نہیںتھے توکیا ظلمت تھے ؟نَعُوذُ بِاللہ ِعَن ھٰذِہِ الخَرَ افَات ِ ۔ آپ کے بشر ہونے میںتوکسی کواختلاف ہی نہیں ۔اگر اختلاف ہے تواتنا ہے کہ آپ ﷺ بشر توتھے لیکن ایسے بشر نہیں جیسے کافر لوگ ان کو بشر سمجھتے تھے کہ ان میں اورہم میں کیا فرق ہے ۔اگر صورت اور اعضاءجسمانی کے اعتبارسے تمام انسان ایک جیسے ہوتے توایک عورت کے سامنے باپ اوربیٹا،خاوند وبھائی میں کیاوجہ امتیازرہتی ۔ابوجہل اورابولہب اورحضورﷺ میں کیافرق رہ جاتا۔
گربصورت آدمی یکساںبدے
احمد وبوجہل ہم یکساں بدے

اگرچہ آپ سراپا نور ہیں کہ سراپا نور فطرت کے عین مطابق ہے اورارشاد ات نبوی اس پرگواہ ہیں کہ آپ نے اپنی ذات کی طرف نور ہونے کی بنسبت کربیان فرمایا ۔ اَوَّلُ مَاخَلَقَ اللہ ُنُورِی جیسی بے شمار احادیث موجود ہیں ۔اس کے باوصف وہ مستجاب الدعوات شخصیت جودعا مانگ رہی ہے وہ بھی تو ملاحظہ فرمائیں ۔آپ دعافرماتے ہیں:
”یعنی اے اللہ میرے کریم اللہ! تومیرے دل میںنور بھردے ،تومیری آنکھ میں نور بھردے ،تومیرے کانوں میںنور سمادے ،میرے اوپر بھی نور ہو ، میرے نیچے بھی نور ہو، میرے دائیں بھی نور،میرے بائیں بھی نور ہو میرے سامنے بھی نور اورمیرے پیچھے بھی نورہو بلکہ تومجھے نورہی نور بنادے “

ان دعائیہ کلمات کے بعد اگرکوئی یہ کہے کہ ہوسکتا ہے آپ کی یہ دعامنظورہی ہوئی ہوتو ایسی فکر رکھنے والااحمقوں کی دنیا میںبستا ہے۔قرآن گواہ ہے ولسوف یعطیک فترضیٰ اور فلنولینّک قبلةً ترضٰھا۔یعنی ذات باری تویہ چاہتی ہے کہ میرا محبوب کچھ طلب کرے اورمیں اس کی چاہتوں ،خواہشوں اوررضا کوپورا کروں اورکوئی یہ کہے کہ ممکن ہے یہ دعا یقینا پوری ہوئی اس لئے آپ نور ہیںبلکہ نورعلی نور ہیں اورجوبھی آپ کے قرب کی لذتوںسے آشنا ہوتا گیا وہ بھی منور ہوتا چلاگیا روشنی کامینار ہ ہوتا گیا۔ راقم الحروف جب مضمون تحریر کرنے لگا تواس موضوع پرکتب بینی کرتے رسائل نعیمیہ بھی نظر نوازہوئے ۔ان میں ایک ”رسالہ نور “بھی ہے۔اس رسالہ کے ابتدائیہ میںشیخ الاسلام والمسلمین ،عشق مصطفوی سے سرشار ،صاحب چشم بصارت وبصیرت حضرت علامہ مفتی احمدیار خان نعیمی رحمتہ اللہ علیہ کایہ فقرہ بہت پسند آیا اوراسی فقرے نے مجھے یہ چند سطور لکھنے پرمزید اُبھار ا ۔وہ فقرہ پڑھئے اورلطیف لیجئے ۔

میں نے حضور ﷺ کانمک کھایا ہے ان کے نام پرپلاہوں۔ان کے دروازے کے ٹکروں پرگزارا کررہا ہوں۔ا ن کی غلامی سے عزت ملی ہے۔نمک حلال نوکرکواپنے آقاکی توہین یااس کے کمال کاانکا ر برداشت نہیں ہوتا ۔مجھے اس سے دکھ ہوتا ہے۔صرف چوب قلم ہاتھ میں ہے یہ تومیسر نہ ہوا کہ بدر وحنین کامیدان ہوتا اوران پرجان نچھاور کرتے ہوئے کفارے کے تیروتلوار اپنے اوپر لیتے ۔
جوہم بھی وہاں ہوتے خاک گلشن
لپٹ کے قدموں کی لیتے اُترن
مگر کریں کیانصیب میںتو
یہ نامرادی کے دن لکھے تھے

اگر وہ نصیب نہ ہوا توکم ازکم چوب قلم سے بدگویوں کامقابلہ کریں اوردشمنوں کے لسان قلم کواپنے اوپرجھیلیں ۔شاید اللہ تعالی قبول فرمائے اورغازیان کے غلاموںمیں حشر نصیب ہوجائے اورحضرت حسان رضی اللہ تعالی عنہ کے حاشیہ برداروں میں قیامت کے دن اٹھائے ۔

یہ مدنظر رکھتے ہوئے فقیر نے اس ”رسالہ نور “کے لکھنے کی ہمت کی ہے جس میںثابت کیا ہے کہ حضور ﷺ اللہ تعالی کے نور ہیںاورسارے عالم کاظہور حضور ﷺ کے نور سے ہے۔

محسن ومربی من حضرت قبلہ حکیم اہل سنت حکیم موسیٰ امرتسری رحمتہ اللہ علیہ نے بھی خصوصاً ارشاد فرمایا کی نجات اُخروی کی اُمید نیت سے کچھ لکھوں تومیںنے یہ چند سطور لکھنے کی سعادت حاصل کی ۔اللہ تعالی شرف قبولیت عطا فرما کرمیرے پیرومرشدحضرت قبلہ شیخ القرآن ابوا الحقائق خواجہ محمد عبدالغفور ہزاروی چشتی نظامی رحمتہ اللہ علیہ اورمیرے والدین کریمین کی نجات اخروی سامان فرمائے ۔آمین

(Syed Qamar Ahmad, Lahore)

Nuraniyat e Mustafa
POSTED BY:

Share this

Previous
Next Post »