نورانیت مصطفی



میرے نزدیک یہ سوال ہی جہالت کی پیداوار ہے کہ حضور ﷺ نورہیںیابشر ؟ کیونکہ نور کی ضدبشرنہیں اورنہ بشرکی ضد نور ہے یہ توایسے ہی ہوا جیسے کوئی پوچھے بتاﺅ وہ فلاں شخص کالاتھا یاٹھنگنا ؟اسے کہا جائے گا کہ بھئی کالے کامتضاد ٹھنگنا نہیں سفید ہے اورٹھنگنے کی ضد کالانہیں لمبا تڑنگا ہے یااگرکوئی پوچھے کہ فلاں صاحب پڑھے لکھے ہیںیااپاہج ؟تواس سے کہا جائے گا ارے نادان ! پڑھے لکھے کامتضاد جاہل ہے اوراپاہج کامتضاد تندرست وتواناہے ۔بعینہ اگر حضور رحمت عالم ﷺ کے بارے میں کوئی سوال کرے کہ بتاﺅ حضور ﷺ نور ہیں یا بشر؟ توہم کہیں گے تمہارا یہ سوال ہی غلط ہے کیونکہ نور کی ضد بشر نہیںظلمت ہے اوربشر ضد نورنہیں بلکہ جن یافرشتہ ہے۔اس وضاحت کے بعد اس سے کہوکہ اب سوال کرو کہ نعوذ بااللہ حضور ﷺ نورہیںیاظلمت؟یا حضورﷺ بشر ہیںجن یافرشتہ ۔

میرے خیال میں احمق سے احمق ترین شخص بھی یہ سوال لب پر نہ لاسکے گا وہ اپنی تمام تر خباثت نفسی و باطنی کے باوجود یہ سوال کر ہی نہیں سکے گا۔ تو نتیجہ یہ ہوا کہ حضور ﷺ ظلمت نہیں نور ہیں۔ اسی طرح حضور نبی کریم ﷺ فرشتے یاجن نہیں بلکہ بشر اورانسان ہیں گویا حضور نبی رحمت ﷺ نوربھی ہیں بشر بھی ہیںیعنی آپ بے مثل اوربے مثل نوری بشر ہیں۔

ہمارے نزدیک حضور پر نور شافع یوم النشورﷺ کی ذات ستودہ صفات کے بارے میںنور ہونے کامطلب ہرگزیہ نہیںکہ حضور سرورکائنات ﷺ نعوذباللہ تعالی کے نور کاٹکڑا ہیں اورنہ ہی ہماراعقیدہ ہے کہ حضور نبی الابنیاءﷺ کی ذات کے نور کامادہ اللہ تعالی کانور ہے العیاذباللہ۔اوراس کایہ مفہوم بھی ہرگز نہیں کہ حضور پرنورشافع یوم النشور ﷺ کانور اللہ تعالی کے نور کی طرح ازلی وابدی ہے اوراس کا یہ مفہوم بھی نہ سمجھا جائے کہ اللہ تعالی حضور ﷺ فداہ امی وابی الفاً الفاً کی ذات میں سرائیت کرگیاہے۔یہ جملہ امورغلط فہمی کی پیداوار ہیںجبکہ حقیقت حال یہ کہ حضور نبی کریم رﺅف رحیم ﷺ کی ذات کے نور ہونے کامفہوم یہ ہے کہ حضور پرنور ﷺ اللہ تعالیٰ کی ذات سے بلاواسطہ فیض لینے والے ہیں جیسے ایک چراغ سے دوسرا چراغ جلاکر پھر اس چراغ سے آگئے ہزاروں لاکھوںچراغ جلالئے جائیں یاایک آئینہ سورج سے بلاواسطہ چمک حاصل کرتا ہے اس کادوسرا رخ اندھیرے کمرے میںپڑے ہزاروں آئنیوں کی طرف بھی ہوتو وہ اس سورج سے بالواسطہ نور لے کرروشن ہوجائیں گے۔اب ظاہر ہے کہ پہلے آئینے میںسورج نے نہ توسرایت کیا ہے اورنہ حلول کیاہے اس کے باوجود اگر یہ آئینہ درمیان میںسے ہٹا دیاجائے تو باقی آئینے پھراندھے کے اندھے ہوکررہ جائیں۔اگر پوری کائنات میںبے حدو عدوعلم وفضل کے چراغ روشن ہیںتوصرف یہ اسی آئینہ حق نما ﷺ کی موجودگی کااحساس دلاتے ہیں۔وہ آئینہ آج بھی اسی طرح ذات باری تعالیٰ سے فیض یاب ہوکرپوری کائنات کومنور کررہا ہے ۔

نورکودوطرح سے سمجھا جاسکتا ہے ایک نور حسی جسے آنکھوں سے محسوس کیاجاسکتا ہے جیسے دھوپ ،چاندنی ،روشنی ، بجلی اورچمک وغیرہ ۔یہ اجالابھی نور ہی کہلاتا ہے اوراسے ہر آنکھ والااورچشم بینا والامحسوس کرتا ہے ۔دوسرا نورعقلی ہے جسے آنکھ سے محسوس تونہ کیاجاسکے البتہ عقل تسلیم کرتی ہے کہ یہ نور ہے جیسے علم وفن ،ہدایت وراہنمائی ،حقیقت ومعرفت کی پہچان ،دین اسلام،کتا ب ہدایت ،تجربات فہم وبصیرت ،یہ ایسا نور ہے جوصرف دل بینا کونظر آتا ہے اوراس نور کوصرف صاحب بصیرت ہی دیکھ سکتا ہے۔ جاہل وعالم میں کیا وجہ امتیاز ہے ۔تجربہ اورناتجربہ کاری میں کیافرق ہے۔دین اوربے دین میںکیا وجہ امتیازہے ۔یہ فرق کرسکنا بھی نورہے ۔آنکھ کوتوبظاہر ان میں کوئی وجہ امتیا زاورکوئی فرق نظر نہیںآتا دونوں کے اعضاءجسمانی ایک سے ہیںدونوں کاانداز گفتگورا ورفتار ایک سی ہے ۔اس لئے ایک جاہل مطلق شخص ان دوحقائق میںفرق نہیںکرسکتا اس نور کوتوصرف کوئی نوروالا ہی پہچان سکتا ہے۔ نور کی ایک صفت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ خود بھی ظاہر ہوتا ہے اوردوسروں کوبھی ظاہر کرتاہے۔یہ صفت نورحس اورعقلی دونوں کی ہے۔سورج ،چاند ،ستارے ،بجلی ،چراغ ،شمع خود بھی منور ہیںاور دوسروں کوبھی منور کرتے ہیں۔اندھیرے چھٹ جاتے ہیں،ظلمتیں کافور ہوجاتی ہیں،۔یہ نور حسی ہے ۔یہ نوربھی صرف دیدہ بینا والے کو نظر آتا ہے۔
دیدئہ کورکیا آئے نظر کیا دیکھے

دوسرا نورعقلی، عالم فاضل،صاحب فن ،صاحب تقویٰ یادنیاوی اعتبار سے تجربہ کارخود بھی آگاہ ہوتا ہے اوروہ اس آگاہی کے نور کوآگے بھی پھیلاتا چلاجاتا ہے اورچراغ سے چراغ روشن ہوتے چلے جاتے ہیں۔کیااس ہدایت وراہنمائی کونورنہیں کہاجاسکتا اوراس نورکوبھی وہی دیکھ سکتا ہے جواس وادی میںقدم رکھنے والا ہو ۔ایک جاہل مطلق کے لئے اس مینارئہ نورمیںاورایک عام انسان میںکوئی وجہ امتیازنظر نہیں آئے گی۔

یہ نورابوجہل کو،ابولہب،عتبہ وشیبہ کو نظر نہیں آیا ۔ یہ نور صرف حضرت عباس رضی اللہ عنہ کونظر آیا انہوںنے دیکھا ،جانا پہچانااورپسند کیا ۔پھر اسی نور سے ان کی راہیں منور ہوئیں۔ذرا آئیے دیکھیںوہ کس طرح اس نور کی عظمت کااعتراف کرتے ہیں۔
وَاَنتَ لَمَّا وَلَد تَّ اَشرَاقَتِ
اَلاَرض وَضَاعَت بِنورِ کَ الا فَقِ
فَنَحن فِی ذَالِکَ الضِّیَائ وَفِی النّورِ
سَبِیل الّرِشَادِ نَحتَرِق
یعنی آپ جب پید اہوئے توآپ کے نور سے زمین وآسمان کے کنارے چمک اٹھے تو ہم اسی نورسے منور ،روشنی میںبستے ہیں اوراسی نور سے ہدایت کے راستے تلاش کرتے ہیں کیا زمین وآسمان کے کنارے آپ کی ولادت باسعادت سے روشن ومنور ہوتے ہوئے عرب کے ان ہزاروں انسانوں کونظر آئے ؟جن کو آپ کوہدایت نصیب نہیں ہوئی ۔

نہیں ہرگز نہیں ایسے لوگ کونہ جب نظر آئے تھے اورنہ آج آرہے ہیں حالانکہ دیکھنے والے جب بھی دیکھتے تھے اورآج بھی دیکھ رہے ہیں کہ آپ کی ولادت باسعادت سے پوری کائنات منور ہوئی تھی اورآج بھی منور ہے اورتاقیامت رہے گی ۔آپ نے اپنے پرودرگار عالم کے فیض نور سے فیض یاب ہوکر نوربصیرت حاصل کیا پھر جوآپ کے قریب آیا وہ خود بھی روشنی کامینار بنتاچلاگیا وہ نور آج بھی چاردانگ عالم میںاپنے نور کااجالا پھیلاتاہوا نظر آتا ہے اس نور کودیکھنے کے لئے ابوجہل ،ابولہب ،عبداللہ ابن ابی کی آنکھ نہیں،بلال حبشی ،صہیب رومی ،سعدبن وقاص اور آل یاسر کی آنکھ کی ضرورت ہے (رضوان اللہ علیہم اجمین) ۔اس آنکھ سے دیکھنے والا اگر آج کوئی پیدا ہوجائے توفوراً پکاراٹھے گا۔
ساعت ذکر پاک رسول آگئی سارے عالم پہ اک کیف چھانے لگا
مطر بان ازل زمزمہ سنج ہیں روح کونین کووجد آنے لگا
ان کی آمد کے پھر تذکرے چھڑگئے ذکر میلادپھردلبھانے لگا
گلستان گلستان پھر بہار آگئی پھر چمن کاچمن مسکرانے لگا

ان کیفات میںڈوب کردیکھنے والوں میںسے چند ایک اورعظیم شخصیات کے احساسات ملاحظہ فرمائیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ حضور نبی کریم ﷺ کے چہرہ انور میںنور جیسی چمک تھی ۔حضرت ہندبن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ کاقول ہے کہ آپ کاچہرہ مبارک چودھویںرات کے چاند کی طرح چمکتا تھاﷺ حضرت ربیع ابن معوذرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر تم آپ ﷺ کودیکھتے توایسامحسوس کرتے یہ گویا سورج نکل آیا ہے ۔حضرت عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں”وچوں آںحضرت عین نور باشد۔نور راسایہ نمی باشد“یعنی چونکہ آپ عین نورتھے اورنور کاسایہ نہیں ہوتا ﷺ حضرت ملاعلی قاری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آپ کواللہ تعالی نے اپنی کتاب میںنور فرمایا ہے۔حضرت امام بوصیری رحمتہ اللہ علیہ قصیدہ بردہ شریف ،میں اپنے کریم آقا ﷺ کے حضور میں اپنی عقیدتوں کے پھول یوں پیش کرنے کااعزاز حاصل کرتے ہیں۔
فَِانَّکَ شَمس فَضلِِ ھُم کَوَاکُِبھَا
یُظھِرُونَ اَنوَارَھَا لَلنَّاسِ فِی الظلّمِ
یعنی اے اللہ کے پیارے رسول ﷺ آپ فضل وکرامت کے سورج اورجملہ انبیاءکرام آپ کے ستارے ہیںجوآپ ہی کانورلوگوں کے لئے اندھیروں میںپھیلارہے ہیں ۔حضرت علامہ جلال الدین رومی رحمتہ اللہ علیہ مثنوی شریف میںنورانیت مصطفوی ﷺ یوں بیان کرتے ہیں۔
عکس نور ہمہ نوری بود
عکس دورازحق ہمہ دوری بود
یعنی اللہ تعالی کے نورکاسایہ بھی نور ہوتا ہے جوخدا سے دور ہوجائے ان کاسایہ بھی دورہوتا ہے ۔
این خورد گرد پلیدی زیںجدا
آںخورگردو ہمہ نورخدا
یہ جوکچھ کھاتے ہیں اس سے ناپاکی ظاہر ہوتی ہے اور وہ جوکچھ کھاتے ہیں وہ سب نور بن جاتا ہے ۔
حضرت امام احمد بن محمد عسقلانی رحمتہ اللہ علیہ نورانیت مصطفوی ﷺ کوبیان کرتے ہیں” اللہ تعالی نے فرمایا اے آدم اپنا سراونچا اٹھا انہوں نے انپا سراوپر اٹھایاتوعرش کے پردوںمیں ایک نوردیکھا ۔عرض کیا اے مولا! یہ نور کیسا ہے؟فرمایا یہ ایک نبی کانورہے جو تمہاری اولاد میںسے ہوں گے ان کااسم گرامی آسمانوں پر احمد ﷺ ہے اوزمین پر محمد ﷺہے ۔اگر وہ نہ ہوتے تو ہم نہ آپ کوپیدا کرتے اورنہ آسمان کواورنہ زمین کو“
مولانااشرف علی تھانوی نشرالطیب میںاپنے جذبات کااظہاریوں کرتے ۔
”پہلی فصل نورمحمدی کے بیان میں“
ٓ اس فصل میں نورانیت مصطفوی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے متعلق تمام احادیث تحریر کرتے ہیں جواہل سنت اکثر وبیشتر بیان کرتے رہتے ہیں مثلا
۱۔ پہلی روایت : عبدالرزاق نے اپنی سند کے ساتھ حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہماسے روایت کیا ہے کہ میںنے عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ پرفدا ہوںمجھ کوخبر دیجئے کہ سب اشیاءسے پہلے تعالیٰ نے کون سی چیز پیدا کی ۔آپ نے فرمایا کہ اے جابر ! اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاءسے پہلے تیرے نبی کانور اپنے نور سے (نہ بایں معنی کہ نورالہیٰ اس کا مادہ تھابلکہ نور فیض سے) پیدا کیا۔پھر وہ نورقدرت الٰہیہ سے جہاںاللہ تعالیٰ کو منظور ہواسیرکرتا رہااس وقت نہ لوح تھی نہ قلم اورنہ بہشت اورنہ دوزخ تھا اورنہ فرشتے تھے اورنہ آسمان تھا ۔پھر جب اللہ تعالی نے مخلوق کوپیدا کرناچاہاتو اس نور کے چاربرابر حصے کئے اورایک حصے سے قلم پیدا کیااوردوسرے سے لوح اورتیسرے سے عرش ،آگے طویل حدیث ۔(نشر الطیب ذکر النبی الحبیب تاج کمپنی لاہورکراچی(۲۵۲،۳۵)۔

حوالہ بالامیں دونوں قوسوں کے درمیان جوعبارت ہے۔(نہ بایںمعنی کہ نورالٰہی اس کامادہ تھابلکہ اپنے نور کے فیض سے)بالکل یہی تصور عقیدہ اہل سنت وجماعت کے طورپر ہم سابقہ سطورمیںبیان کرآئے ہیں۔
۲۔پانچویںروایت : احکام ابن القطان میںمنجملہ ان روایات کے جوابن مرزوق نے ذکر کی ہیں۔حضرت علی بن الحسین (یعنی امام زین العابدین )رضی اللہ عنما سے روایت ہے وہ اپنے باپ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اوروہ ان کے جد امجد یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں کہ بنی ﷺ نے فرمایا کہ آدم علیہ اسلام کے پیداہونے سے چودہ ہزار برس پہلے اپنے پرودگارکے حضور میں ایک نورتھا صفحہ ۸،۹۔

مزید آگے چل کرحضرت عباس رضی عنہ نے عم رسول ﷺ کاقصیدہ تحریرکیاہے جس کاایک شعر ہم گزشتہ سطور میںبیان کرآئے ہیں اورقصیدہ بردہ شریف کے اشعاربھی نقل کئے ہیں جن کاذکر گزشتہ سطور میںمادہ تھا بلکہ نور کے فیض سے ) پیدا کیا ۔پھر وہ قدرت الٰہیہ سے جہاں اللہ تعالی کومنظورہواسیر کرتا رہا ۔اس وقت نہ لوح تھی قلم اورنہ بہشت اورنہ دوزخ تھا اورنہ چاند تھا اورنہ جن تھا اورنہ انسان تھا ۔پھر جب اللہ تعالی نے مخلوق کوپیدا کرناچاہا تواس نور کے چارحصے کئے اورایک حصے سے قلم پیدا کیا اوردوسرے سے لوح اورتیسرے سے عرش آگے طویل حدیث ہے۔
(نشر الطیب ذکر النبی الحبیب تاج کمپنی لاہور ،کراچی ۲۵۲،۳۵)چوتھی فصل : آپ کے نور مبارک کے بعض آثار کے ظاہرہونے میںآپ کے والد ماجد جدامجد ہیں ۔اس فصل میںپہلی حدیث ملاحظ فرمائیں ۔

پہلی روایت حافظ ابوسعید نیشاپوری ابی بکر بن ابی مریم اورانہوں نے سعید بن عمر و انصاری سے اورانہوںنے اپنے باپ سے اورانہوں نے کعب احبار سے ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کانورمبارک جب عبدالملطب میںمنتقل ہواوروہ کچھ جوان ہوگئے توایک دن حطیم میںسوگئے ۔جب آنکھ کھلی تودیکھا آنکھ میںسرمہ لگا ہوا ہے ،سرمیںتیل پڑا ہے اورحسن وجمال کالباس زیب تن ہے ان کوسخت حیرت ہوئی کہ کچھ معلوم نہیںیہ کس نے کیا ہے۔ان کے والد ان کاہاتھ پکڑکر کاہنان قریش کے پاس لئے گئے اورسارا واقعہ بیان کیا۔انہوںنے جواب دیا معلوم کرلو کہ رب السمٰوٰات نے اس نوجوان کونکاح کاحکم فرمایا ہے۔ چنانچہ انہوںنے فاطمہ سے نکاح کیااوروہ عبداللہ آپ کے والد ماجد کے ساتھ حاملہ ہوگئیں اورعبدالمطلب کے بدن سے خوشبو آتی تھی اوررسول اللہ ﷺ کانوران کی پیشانی میںچمکتا تھااورجب قریش میںقحط ہوتا توعبدالمطلب کاہاتھ پکڑ کرجبل شبیر کی طرف لے جاتے تھے اوران کے ذریعے سے حق تعالیٰ کے ساتھ تقریب ڈھونڈتے اوربارش کی دعاکرتے تواللہ تعالی بہ برکت نورمحمدی ﷺکے باران عظیم رحمت فرماتے ۔۔۔الخ کذافی المواہب صفحہ ۰۲۔
اس عبارت میں غور فرمائیں یہ ہیں و ہ مبارک الفاظ جن کی ادائیگی کے”جرم“میں اہل سنت وجماعت موردالزام ہیں
تیری زلف میںپہنچی توحسن کہلائی
وہ تیرگی جومیرے نامہ سیاہ میں ہے
مولانااشرف علی تھانوی صاحب اپنی کتاب ثلج الصدور میں لکھتے ہیں۔
درشعاع بے نظیرم لاشوید
ورنہ پیش نورمن اسواشوید
اپنی کتاب کے ایک مقام پرلکھتے ہیں
نبی خود نور اورقرآن ملانور
نہ ہو پھر مل کیوںنور علی نور
حضرت شاہ عبدالرحیم رحمتہ اللہ علیہ حضرت شاہ ولی رحمتہ اللہ علیہ کے والد ماجد ”انفاس رحیمیہ“میںتحریر فرماتے ہیں۔
”فرش سے عرش تک اوراعلی فرشتے اسفل کی جنس سب کے سب حقیقت محمد یہ سے پیدا ہوئے ہیں ۔حضور ﷺ کافرمان ہے سب سے پہلے اللہ تعالی نے میرے نور کوپیدا فرمایا ۔اگر آپ نہ ہوتے تواللہ تعالی نہ آسمانوں کوپیدا کرتا اورنہ ہی اپنی ربوبیت کوظاہر کرتا “
مولانا حسین احمد صاحب ”الشہاب الثاقب “ میںلکھتے ہیں۔
”ہمارے حضرات اکابر کے اقوال وعقائد کوملاحظ فرمائیے ۔یہ جملہ حضرات حضور پرنور علیہ السلام کو ہمیشہ سے ہمیشہ تک واسطہ فیوضات الہٰیہ وسراب رحمت غیر متناہیہ اعتقاد لئے بیٹھے ہوئے ہیں۔ان کاعقیدہ یہ ہے کہ ازل سے ابدتک جورحمتیں عالم پرہوئی ہیں اورہوں گی ۔عام ہے وہ نعمت وجود کی ہویا کسی اورقسم کی ان سب میںآپ کی ذات پاک اسی طرح واقع ہوئی کہ آفتاب سے چاند وجود میں آیا اورچاند سے نور ہزاروں آئینوں میںغرض کہ حقیقت محمد یہ واسطہ جملہ کمالا ت عالم وعالمیان ہیں۔
یہ ہی معنی لولاک لماخلقت الافلاک اوراول ماخلق اللہ نوری وانانبی الانبیا ءکے ہیں “۔

مولانارشید احمد گنگوی صاحب ”امدادالسلوک “میں لکھتے ہیں۔اس سبب سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نوراورکتاب مبین آئے ۔نور سے مراد حبیب خدا ﷺ کی ذات پاک ہے۔نیز حق تعالی فرماتا ہے کہ اے نبی ﷺ ہم نے آپ کوگواہ اوربشیر ونذیر اللہ تعالی کی طرف بلانے والا چمکانے والا سورج بناکر بھیجا ۔منیر رو شن کرنے اورنوردینے والے کو کہتے ہیں“
ایک مقام پراسی کتاب میںتحریر کرتے ہیں۔
”حضور ﷺ بھی حضرت آدم کی اولاد مگر نبی ﷺ کواس طرح پاک فرمالیا کہ آپ خالص نور ہوگئے اوراللہ تعالی نے آپ کونور فرمایا ۔یہ حدیث ہوچکی ہے کہ حضور ﷺ سایہ نہ رکھتے تھے اورظاہر ہے نور کے سوا تمام جسم سایہ رکھتے ہیں “

گویاہم ان برزگان دین کے عقائد اورنظریات سے اس نتیجہ پرپہنچے کہ نوروہ نور جوخود ظاہر ہواور دوسروں کوبھی ظاہر کرے ۔حضور نبی کریم ﷺ خود ایسے ظاہر کہ انہیں بحر وبر،خشک وتر ،شجر وحجر ،آسمان کاہرستارہ زمین کاہرذرہ پہچانتا ہے ۔انسان انہیں جانیں،جانورانہیں پہچانیں ،کنکروں کوان کاکلمہ ازبر ہو ،پتھران کی گواہی دیں۔غرض کہ حضور ﷺ خود ایسے چمک چمک اٹھے مدینہ منورہ کی گلیاںحضور ﷺ سے چمکیں ،مکہ مکرمہ کے کوچہ وبازارآپ سے چمکے ،خانہ کعبہ کے درودیوار ،نقش ونگار آپ ہی سے جگمگائے۔آپ ہی کے وسیلہ سے آپ ہی کی نسبت سے بلکہ آپ ہی کی وجہ سے حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے نصیب چمکے کہ دنیا ان کی عظمت کے گیت گارہی ہے۔
بڑی تونے توقیر پائی حلیمہ
کہ ہے تومحمد ﷺ کی دائی حلیمہ

اندھا راستہ دکھا نہیںسکتا کہ وہ خوداندھاہے راستے سے بے خبر ہے۔غافل کسی کا راہبر نہیںبن سکتا کہ غافل جوٹھہرا ۔جاہل علم کی روشنی نہیںبانٹ سکتا کہ وہ خود اس نعمت عظمیٰ سے محروم ہے ۔خود سونے والا دوسروں کوکیسے جگاسکتا ہے۔بلاشبہ ساری کائنات انسانی ازآدم ایںدم فطرتاً روشنی کی متلاشی ہے ۔اس روشنی کے بانٹنے کافرض اللہ تعالی نے انبیاءکرام کے سپرد کیا اوریہ انبیا ءکرام خود اس منصب پرفائز نہیںہوئے اورنہ کوئی اپنی کسب وہمت سے اس منصب پرفائز ہوسکتا ہے بلکہ خود خالق کائنات خالق انسانیت نے اندھیروںسے نکال کرروشنی میںلانے ،پھراس سے انہیںروشن کرنے اوران کوروشنی کامینار بنانے کے لئے انبیاءکرام کواس مرتبہ جلیلہ پرفائز کیا۔ لہذا ان انبیاءکرام کواس عظیم منصب کے حوالہ سے جس جس جبلت کی ان کے دورمیںضرورت تھی وہ بدرجہ اتم خود ان میںپیدا کردی ۔انہیںعام انسانوں سے ہراعتبار سے ممتاز کیا۔ ان کی سیرت ،ان کاکردار ،ان کی صورت ، انکی نشست وبرخاست ،خوردونوش ،آمدورفت غرض کہ ہر نبی ہر اعتبار سے اموکھااورنرالہ ہے ۔یہ صفات بھی خود ان کی اپنی ذات میںاپنی پیدا کردہ نہیں ہیں بلکہ خود خالق ارض وسمانے ان میںپیدا کی ہیں ۔یہ کفر وضلالت ،جہالت وگمراہی میںبھٹکنے والوں کومِنَ الظّلُمٰت ِ اِلَی النّورِ لانے والے کیاخود بے نور تھے ؟ نعوذ باللہ ہرگز نہیںوہ نور تھے ۔سراپانور تھے اورہونا بھی چاہئے تھااگر ایسا نہ ہوتا توفطرت کے بالکل خلاف ہوتا ۔

یہی وجہ کہ سب اہل علم سب اہل سنت ونبی آخرالزمان ،رحمت کائنات ،معلم علم و حکمت حضرت محمد ﷺ کوعقیدة نورسمجھتے ہیںاورخدا نخواستہ وہ نور نہیںتھے توکیا ظلمت تھے ؟نَعُوذُ بِاللہ ِعَن ھٰذِہِ الخَرَ افَات ِ ۔ آپ کے بشر ہونے میںتوکسی کواختلاف ہی نہیں ۔اگر اختلاف ہے تواتنا ہے کہ آپ ﷺ بشر توتھے لیکن ایسے بشر نہیں جیسے کافر لوگ ان کو بشر سمجھتے تھے کہ ان میں اورہم میں کیا فرق ہے ۔اگر صورت اور اعضاءجسمانی کے اعتبارسے تمام انسان ایک جیسے ہوتے توایک عورت کے سامنے باپ اوربیٹا،خاوند وبھائی میں کیاوجہ امتیازرہتی ۔ابوجہل اورابولہب اورحضورﷺ میں کیافرق رہ جاتا۔
گربصورت آدمی یکساںبدے
احمد وبوجہل ہم یکساں بدے

اگرچہ آپ سراپا نور ہیں کہ سراپا نور فطرت کے عین مطابق ہے اورارشاد ات نبوی اس پرگواہ ہیں کہ آپ نے اپنی ذات کی طرف نور ہونے کی بنسبت کربیان فرمایا ۔ اَوَّلُ مَاخَلَقَ اللہ ُنُورِی جیسی بے شمار احادیث موجود ہیں ۔اس کے باوصف وہ مستجاب الدعوات شخصیت جودعا مانگ رہی ہے وہ بھی تو ملاحظہ فرمائیں ۔آپ دعافرماتے ہیں:
”یعنی اے اللہ میرے کریم اللہ! تومیرے دل میںنور بھردے ،تومیری آنکھ میں نور بھردے ،تومیرے کانوں میںنور سمادے ،میرے اوپر بھی نور ہو ، میرے نیچے بھی نور ہو، میرے دائیں بھی نور،میرے بائیں بھی نور ہو میرے سامنے بھی نور اورمیرے پیچھے بھی نورہو بلکہ تومجھے نورہی نور بنادے “

ان دعائیہ کلمات کے بعد اگرکوئی یہ کہے کہ ہوسکتا ہے آپ کی یہ دعامنظورہی ہوئی ہوتو ایسی فکر رکھنے والااحمقوں کی دنیا میںبستا ہے۔قرآن گواہ ہے ولسوف یعطیک فترضیٰ اور فلنولینّک قبلةً ترضٰھا۔یعنی ذات باری تویہ چاہتی ہے کہ میرا محبوب کچھ طلب کرے اورمیں اس کی چاہتوں ،خواہشوں اوررضا کوپورا کروں اورکوئی یہ کہے کہ ممکن ہے یہ دعا یقینا پوری ہوئی اس لئے آپ نور ہیںبلکہ نورعلی نور ہیں اورجوبھی آپ کے قرب کی لذتوںسے آشنا ہوتا گیا وہ بھی منور ہوتا چلاگیا روشنی کامینار ہ ہوتا گیا۔ راقم الحروف جب مضمون تحریر کرنے لگا تواس موضوع پرکتب بینی کرتے رسائل نعیمیہ بھی نظر نوازہوئے ۔ان میں ایک ”رسالہ نور “بھی ہے۔اس رسالہ کے ابتدائیہ میںشیخ الاسلام والمسلمین ،عشق مصطفوی سے سرشار ،صاحب چشم بصارت وبصیرت حضرت علامہ مفتی احمدیار خان نعیمی رحمتہ اللہ علیہ کایہ فقرہ بہت پسند آیا اوراسی فقرے نے مجھے یہ چند سطور لکھنے پرمزید اُبھار ا ۔وہ فقرہ پڑھئے اورلطیف لیجئے ۔

میں نے حضور ﷺ کانمک کھایا ہے ان کے نام پرپلاہوں۔ان کے دروازے کے ٹکروں پرگزارا کررہا ہوں۔ا ن کی غلامی سے عزت ملی ہے۔نمک حلال نوکرکواپنے آقاکی توہین یااس کے کمال کاانکا ر برداشت نہیں ہوتا ۔مجھے اس سے دکھ ہوتا ہے۔صرف چوب قلم ہاتھ میں ہے یہ تومیسر نہ ہوا کہ بدر وحنین کامیدان ہوتا اوران پرجان نچھاور کرتے ہوئے کفارے کے تیروتلوار اپنے اوپر لیتے ۔
جوہم بھی وہاں ہوتے خاک گلشن
لپٹ کے قدموں کی لیتے اُترن
مگر کریں کیانصیب میںتو
یہ نامرادی کے دن لکھے تھے

اگر وہ نصیب نہ ہوا توکم ازکم چوب قلم سے بدگویوں کامقابلہ کریں اوردشمنوں کے لسان قلم کواپنے اوپرجھیلیں ۔شاید اللہ تعالی قبول فرمائے اورغازیان کے غلاموںمیں حشر نصیب ہوجائے اورحضرت حسان رضی اللہ تعالی عنہ کے حاشیہ برداروں میں قیامت کے دن اٹھائے ۔

یہ مدنظر رکھتے ہوئے فقیر نے اس ”رسالہ نور “کے لکھنے کی ہمت کی ہے جس میںثابت کیا ہے کہ حضور ﷺ اللہ تعالی کے نور ہیںاورسارے عالم کاظہور حضور ﷺ کے نور سے ہے۔

محسن ومربی من حضرت قبلہ حکیم اہل سنت حکیم موسیٰ امرتسری رحمتہ اللہ علیہ نے بھی خصوصاً ارشاد فرمایا کی نجات اُخروی کی اُمید نیت سے کچھ لکھوں تومیںنے یہ چند سطور لکھنے کی سعادت حاصل کی ۔اللہ تعالی شرف قبولیت عطا فرما کرمیرے پیرومرشدحضرت قبلہ شیخ القرآن ابوا الحقائق خواجہ محمد عبدالغفور ہزاروی چشتی نظامی رحمتہ اللہ علیہ اورمیرے والدین کریمین کی نجات اخروی سامان فرمائے ۔آمین

(Syed Qamar Ahmad, Lahore)

Nuraniyat e Mustafa
حضورﷺ  سے حضرت عائشہ کی نکاح کے وقت عمر مبارک کا مسئلہ

حضور ﷺسے حضرت عائشہ کی نکاح کے وقت عمر مبارک کا مسئلہ



اس مرتبہ ہم نے ایک ایسے ہی موضوع کا انتخاب کیا ہے جس کی بناءپر مغرب میں اسلامی تعلیمات پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس بہتان یا غلط فہمی کو دور کرنا ہمارے مسلمان بھائیوں کی ذمہ داری تھی مگر یہ دیکھ کر دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے کہ ہم میں سے اکثر نہ صرف اس غلط فہمی کو دور نہیں کر پاتے بلکہ ایسی ایسی توجیہات پیش کرتے ہیں کہ مخالفین کا یہ اعتراض یقین کا درجہ اختیار کر لیتا ہے۔

رسول اکرمﷺ سے نکاح و رخصتی کے وقت ام ا لمومنین حضرت عائشہ صدیقہ کی کم عمری اور کم سنی تاریخ کا ایسا پہلو ہے جس میں اصلاح کی گنجائش موجود ہے اور ہمارا قبلہ درست ہونا چاہیئے۔ عام طور پر یہی خیال کیا جاتا ہے کہ سیدہ عائشہ صدیقہؓ کا نکاح چھ برس کی عمر میں اور رخصتی نو برس کی عمر میں ہوئی۔

اس خیال کی اس قدر پبلسٹی کی گئی ہے کہ حقیقت بالکل پس پردہ چلی گئی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس کے بر عکس تاریخ سے ہمیں یہ روشنی ملتی ہے کہ نکاح کے وقت حضرت عائشہؓ کی عمر 15 سال ہجرت کے وقت اٹھارہ سال اور رخصتی کے وقت انیس سال تھی اور اس کے ثبوت بھی قوی اور کثیر ہیں تو ممکن ہے بہت سے لوگوں کے لئے یہ بات بالکل نئی ہو۔ اس قدر واضح اور روشن تاریخی حقیقت دانستہ یا نا دانستہ نجانے کیوں چھپائی گئی اور حضرت عائشہؓ کی زیادہ عمر والی روایات کے مقابلہ میں، کم سنی یا بچبن پر دلالت کرنے والی روایات کو کس بناءپر ترجیح دی گئی؟

اس موضوع پر مزید گفتگو سے پہلے ہم عام طور پر بیان کی جانے والی روایات کا جائزہ لیتے ہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ حضرت عائشہؓ کی ولادت اعلان نبوت کے چار برس بعد شوال کے مہینہ میں ہوئی۔ نبوت کے دسویں سال جبکہ آپؓ کی عمر چھ سال تھی آنحضرت ﷺ نکاح ہوا ۔ اس وقت حضرت عائشہؓ پر بچپن غالب تھا اور آپؓ بچیوں کے ساتھ کھیل رہی تھیں۔ آپ کی اماں آئی اور اندر لے گئی۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے آ کر نکاح پڑھا دیا۔ حضرت عائشہؓ سے یہ جملہ بھی منسوب ہے کہ “جب میرا نکاح ہوا تو مجھ کو خبر تک نہ ہوئی۔ جب میری والدہ نے باہر نکلنے میں روک ٹوک شروع کی تب میں سمجھی کہ میرا نکاح ہو گیا۔ اس کے بعد میری والدہ نے مجھے سمجھا بھی دیا“۔

آگے ہم جو حقائق پیش کریں گے ان میں قارئین کو تاریخ سمجھنے میں مشکل پیش آسکتی ہے۔ آپ کی آسانی کے لئے اس کی وضاحت پیش ہے۔ جس طرح ہم انگریزی سال بیان کرنے میں سن کے ساتھ عیسوی لکھتے ہیں اور اسلامی سن کے ہمراہ ہجری لکھتے ہیں۔ اسی طرح آگے ہم نبوی اور محمدی کی اصطلاح بھی استعمال کریں گے۔ حضور ﷺ کے ولادت سے اعلان نبوت کے دورانیے کو “محمدی “ اور برس کو “سال محمدی “ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یعنی حضور ﷺ جب ایک برس کے ہوئے تو اسے 1 محمدی کہیں گے۔ اعلان نبوت سے ہجرت تک کا دورانیہ “نبوی“ اور ہجرت کے بعد “سن ہجری“ کہلاتا ہے۔ یعنی ہجرت سے پہلے کے سالوں کو نبوی اور نبوت سے پیشتر کے سالوں کو محمدی کے نام سے پہنچانا جاتا ہے۔

حضرت عائشہؓ کی کم سنی پر دلالت کرنے والی روایات مورخ ابن سعد کی کتاب طبقات میں ہونے کی وجہ سے مستند گردانی جاتی ہے۔ اس پر مزید کوئی تبصرہ کئے بغیر ہم چند دوسری مستند کتابوں سے رجوع کرتے ہیں جو ہمارے موقف کی تائید کرتی ہیں۔ چونکہ یہ استدلال کئی کتابوں کا ہے اس لئے زیادہ ثبوت کی وجہ سے اس پر ہی یقین کیا جانا چاہئے۔

پہلا ثبوت:۔ مورخ ابی جعفر محمد بن جریر ا لطبری نے اپنی مشہور عالم کتاب تاریخ طبری میں خلیفہ اول سیدنا ابو بکر صدیقؓ کی ازواج کا تذکرہ کیا ہے اسی کے آخر میں ایک جملہ یہ ہے کہ حضرت عائشہؓ کی ولادت آمد اسلام سے پہلے ہوئی تھی۔

“علی بن محمد کی روایت ہے کہ ابوبکرؓ نے زمانہ جاہلیت میں قتیلہ سے نکاح کیا تھا۔ واقدی اور کلبی بھی اس روایت سے متفق ہیں وہ کہتے ہیں کہ قتیلہ کا شجرہ یہ ہے قتیلہ بنت عبد ا لعزیٰ بن عبد بن اسعد بن جار بن مالک بن حمل بن عامر لوئی۔ قتیلہ سے آپؓ (حضرت ابوبکرؓ) کے یہاں عبداللہ اور اسماء(عبدا للہ بن زبیر کی والدہ )پیدا ہوئیں۔ نیز زمانہ جاہلیت میں آپؓ نے ام رومان بنت عامر بن عمیرہ بن ذاہل بن وہمان بن ا لحارظ بن غنم بن مالک بن کنانہ سے نکاح کیا تھااور بعض لوگوں کا قول ہے کہ وہ اُم رومانؓ بنت عامر بن عویمر بن عبد شمس بن عتاب بن اذینہ بن سبیع بن وہمان بن ا لحاث بن غنم بن مالک بن کنانہ تھیں۔ ان کے بطن سے آپ کے یہاں عبد ا لرحمان اور عائشہ پیدا ہوئیں ۔ آپ کی یہ چاروں اولادیں جو ان دو بیویوں سے پیدا ہوئیں جن کا ہم نے ذکر کیا ہے۔ قبل از اسلام کے زمانے میں پیدا ہوئی تھیں“ (تاریخ طبری مترجم سید محمد ابراہےم صفحہ 271 )۔

یہاں طبری نے چاروں اولادوں کی سن پیدائش کا تو ذکر نہیں کیا لیکن یہ تذکرہ موجود ہے کہ یہ سب اولادیں بعثت نبوی سے قبل پیدا ہوئیں۔ حضرت عائشہؓ جوان چاروں میں سے سب سے چھوٹی تھیں آپ © بھی نبوت سے قبل پیدا ہوئی تھیں۔

دوسرا ثبوت:۔ سیرت ا لنبی ﷺ کی مشہور کتاب سیرة ابن ہشام کی جانب آئیے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے چالیس سال کی عمر میں نبوت کا اعلان فرمایا۔ ابتدائی اسلام قبول کرنے والے صحابہ کرامؓ اسابقون الاولون کہاجاتا ہے۔ ابن ہشام نے سابقون ا لاولون کی جو فہرست اپنی کتاب میں بیان کی ہے اس میں اٹھارویں نمبر پر حضرت اسماءبنت ابوبکرؓ اور انیسویں نمبر پر حضرت عائشہ بنت ابوبکر کا نام دیا ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھیئے سیرة ابن ہشام صفحہ نمبر 126 ۔

کہاں تو حضرت عائشہؓ کا سال ولادت ہی 4 نبوی یعنی نبوت کا چوتھا سال بتایا جاتا ہے۔ دوسری طرف حضرت عائشہؓ اسلام قبول کرنے والی انیسویں صحابیہ ہیں اور ظاہر ہے قبول اسلام ایسی صورت میں ہی کیا ہوگا کہ آپؓ کو کفرو اسلام کو سمجھنے کا شعور حاصل تھا۔ اس سے بھی ثابت ہے کہ حضرت عائشہؓ بعثت نبوی سے قبل مکہ میں پیدا ہوئی تھیں۔

تیسرا ثبوت: تاریخ طبری اور سیرت ابن ہشام سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ حضرت عائشہؓ کی پیدائش بعثت نبوی سے قبل ہو گئی تھی لیکن آپؓ کی پیدائش کب ہوئی۔ آئیے یہ تلاش کرتے ہیں۔ حدیث کی معروف کتاب مشکٰوة ا لمصابیح کی کتاب اسماءا لرجال متعلقہ مشکٰوة میں ہے “حضرت اسماءبنت ابی بکرؓ صحابیہ ہیں اور حضرت عائشہؓ کی سوتیلی بہن ہیں اور ان سے دس برس بڑی ہیں۔ قدیم ا لاسلام ہیں۔ سترہ آدمیوں کے بعد اٹھارویں اسلام قبول کرنے والی ہیں۔ ان کی وفات ان کے صاحبزادہ عبد ا للہ بن زبیرؓ کی شہادت کے چند دن بعد 73 ہجری میں ہوئی اس وقت ان کی عمر سو برس کی تھی“۔

اسمائؓ ا لرجال کی ایک اہم کتاب اسد ا لغابہ میں حضرت اسمائؓ کے بارے میں اسی بات کی تصدیق یوں ہوتی ہے۔

حضرت اسمائؓ حضرت عائشہؓ سے بڑی تھیں۔ حضرت عائشہؓ والد کی جانب سے ان کی بہن تھیں۔ عبداللہ بن ابی بکرؓ ان (حضرت اسمائؓ ) کے حقیقی بھائی تھے۔ ابو نعیم نے کہا کہ ان کی پیدائش ہجرت سے ستائیس سال پہلے ہوئی تھی اور جب ان کی پیدائش ہوئی تو ان کے والد(یعنی حضرت ابو بکرؓ ) کی عمر کچھ اوپر بیس سال کی تھی حضرت اسمائؓ سترہ آدمیوں کے بعد اسلام لائی تھیں © (اسد ا لغابہ جلد 5 صفحہ 292 )

ابن کثیر نے اپنی شہرہ آفاق تالیف البدایہ والنہایہ میں حضرت اسمائؓ کا تذکرہ بالکل اسی طرح کیا ہے۔

“اور حضرت اسمائؓ موت کے اعتبار سے تمام مہاجرین و مہاجرات میں سب سے آخری ہیں۔ ان کی بہن حضرت عائشہؓ ہیں۔ ان کے والد ابوبکرصدیقؓ ہیں۔ ان کے دادا ابو عتیق ہیں۔ ان کے بیٹے عبداللہؓ ہیں اور ان کے شوہر حضرت زبیر © ہیں اور یہ سب کے سب صحابی ہیں۔ حضرت اسماءاپنے بیٹے اور شوہر کے ساتھ معرکہ یرموک میں شریک تھیں۔ یہ اپنی بہن عائشہؓ سے دس سال بڑی تھیں۔ 73ھ میں جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے انہیں اپنے بیٹے عبداللہؓ کے قتل کا واقعہ دیکھنا پڑا اس واقعہ کے پانچ دن بعد اور ایک قول ہے کہ دس دن بعد ، تیسرا قول ہے کہ بیس دن بعد اور چوتھا قول ہے کہ کچھ اوپر بیس دن بعد اور پانچواں قول ہے کہ سو دن بعد اور یہی قول مشہور ہے۔ حضرت اسمائؓ نے وفات پائی۔ وفات کے وقت ان کی عمر سو سال تھی۔ “(البدایہ و النہایہ جلد 8 صفحہ 346 )

متذکرہ بالا تینوں تاریخی کتابوں کی شہادتوںسے ثابت ہوتا ہے کہ 73 ھ میں حضرت اسمائؓ کی وفات سو سال کی عمر میں ہوئی۔ اس حساب سے حضرت اسمائؓ ہجری میں28 سال کی تھیؓ اور ان کی ولادت 2 قبل از ہجری مطابق 15 قبل نبوت مطابق 26 محمدی میں ہوئی تھی۔ سیدہ عائشہؓ صدیقہ ان سے عمر میں دس سال چھوٹی تھیں اس لئے ولادت حضرت عائشہؓ 36 محمدی مطابق 5 قبل ہجرت کے وقت حضرت عائشہ ؓکی عمر اٹھارہ سال کی تھی۔ ہجرت سے دو سال قبل آپ کا نکاح ہوا تھا ہجرت کے ایک سال بعد یعنی انیس سال کی عمر میں آپؓ نبی ﷺ کے حرم میں داخل ہوئیں۔

چوتھا ثبوت:۔ صحیح بخاری میں امام بخاری نے کتاب الہجرت باب نکاح عائشہؓ کے زیر عنوان ایک روایت درج کی ہے۔ حدیث بہت طویل ہے او ر اس کا مکمل متن و ترجمہ یہاں نقل کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ تفصیل صحیح بخاری کی کتاب ا لہجرت میں دیکھی جاسکتی ہے۔ البتہ اس کے ابتدائی حصہ کا ترجمہ مندرجہ ذیل ہے۔

“حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ جب سے میں نے ہوش سنبھالا اپنے والدین کو دین سے مزین پایا اور کوئی دن ایسا نہ ہوتا تھا کہ جس میں رسول ا للہ ﷺ صبح و شام دونوں وقت ہمارے ہاں تشریف نہ لاتے ہوں۔ پھر جب مسلمانوں کو ستایا جانے لگا تو ابو بکرؓ بھی ہجرت کے ارادے سے ارض حبشہ کی طرف چل دیئے۔ حتیٰ کہ مقام برک الغماد پہنچے تو قبیلہ قارہ کے سردار ابن الدغنہ سے ملاقات ہوئی۔ اس نے پوچھا اے ابوبکرؓ کہاں جانے کا ارادہ ہے؟ ابوبکرؓ نے جواب دیا کہ میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اب زمیں کی سیاحت کروں اور اپنے رب کی عبادت کروں ۔ ابن ا لدغنہ نے کہا کہ تم جیسا آدمی نہ نکل سکتا ہے اور نہ نکالا جاسکتا ہے۔ تم حاجت مند کی مدد کرتے ہو۔ رشتہ داروں سے سلوک کرتے ہو بے کسوں کی کفالت کرتے ہو۔ مہمان کی ضیافت کرتے ہو اور دوسروں کے لئے راہ حق میں تکلیف اٹھاتے ہو۔ میں تمہیں اپنی پناہ میں لیتا ہوں۔ چلو لوٹ چلو اور اپنے وطن میں رہ کر اپنے رب کی عبادت کرو۔ چنانچہ ابوبکرؓ ابن ا لدغنہ کے ساتھ واپس آئے۔ “

تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ حبشہ کی اولین ہجرت 5 نبوی کے دوران ہوئی اور اسی میں حضرت ابوبکرؓ نے بھی حبشہ روانہ ہونے کا ارادہ کیا لیکن ابن الدغنہ کی حمایت پر واپس آ گئے اور حضور ﷺ کی حضرت ابوبکرؓ کے گھر صبح شام آنے جانے کا متذکرہ بالا معمول یقینا 5 نبوی سے پہلے کا ہے۔ یعنی 5 نبوی سے قبل ہی حضرت عائشہؓ اتنے شعور کو پہنچ چکی تھیں کہ کفر و اسلام کا فرق جانتی تھیں۔ حضور ﷺ کی روزانہ دو مرتبہ آمد، مسلمانوں کو اسلام قبول کرنے کی پاداش میں ستائے جانے، حضرت ابوبکرؓ کی ابن ا لدغنہ سے ملاقات و گفتگو اور اس کی حمایت میں واپسی کا گہرا مشاہدہ ان کی نظر میں تھا۔ اگر حضرت عائشہؓ چار نبوی میںپیدا ہوئیں تو ان کو شعور سنبھالنے میں بھی کم از کم پانچ سال کا عرصہ لگتا یعنی نو نبوی تک لیکن اس کے برعکس آپؓ 5 نبوی سے قبل کے واقعات مشاہداتی انداز میں بیان فرما رہی ہیں۔ اس کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہے کہ آپ اتنا شعور رکھتی تھیں کہ ان معاملات کو سمجھ سکیں۔

پانچواں ثبوت:۔ بعثت نبوی سے پہلے اور بعد کے کئی واقعات میں سن و سال کا اختلاف تاریخ کے قاری کے لئے پرایشانی کا سبب بنتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا سفر معراج بھی ایسے ہی واقعات میں سے ایک ہے جس میں بہت اختلاف ہے۔ ہجرت سے تین سال پیشتر سے لے کر ہجرت سے چھ ماہ قبل تک دس اقوال ملتے ہیں۔اس کا اندازہ اس سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ واقعہ معراج حضرت عائشہ اور رسول اللہ ﷺ کے عقد سے پہلے کا ہے۔ حضرت عائشہؓ سے حضور ﷺ کا نکاح 10 نبوی میں ہوا یعنی واقعہ معراج اس نکاح سے پہلے پیش آیا۔ جب حضور اکرم ﷺ نے سفر معراج کے مشاہدات لوگوں میں بیان فرمائے تو فوراً ہی یہ موضوع زبان زد عام ہوگیا۔ مخالفین اس ماورائے عقل واقعہ پر تنقید کرتے اور صحابہ اکرامؓ اس بارے میں حضور ﷺ سے سوالات کرتے اور آپس اس موضوع پر تبادلہ خیال کرتے۔ اس واقعہ کو روایت کرنے والوں میںپینتالیس صحابہ اکرامؓ کے نام ملتے ہیں۔ ان میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا نام بھی شامل ہے۔ نکاح سے پہلے کا یہ وہ دور ہے جس کے بارے میں اکثر لوگ جھوم جھوم کر یہ بتاتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ اتنی کم سن تھیں کہ محلے کی بچیوں کو بلا کر گڑیوں سے کھیلا کرتی تھیں۔ اگر حضرت عائشہ اس وقت اتنی کم عمر تھیں تو اتنے سنجیدہ اور عمیق موضوع پر رائے کیوں دی اور اس میں دلچسپی کیوں لی؟

سب جانتے ہیں کہ سنجیدہ موضوعات پر چار پانچ سالہ بچوں کی رائے کو کبھی اور کہیں کوئی اہمیت نہیں دی جاتی تو پھر معراج کے معجزہ بیان واقعہ پر حضرت عائشہ ؓ نے رائے کیوں دی اور آپ کا نام راویان کرام میں کیوں شامل کیا گیا؟

اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ واقعہ معراج کے وقت عالم شباب میں تھیں اور شعور میں بلوغت نمایاں ہو چکی تھی۔ آپ کی عقلی فراست کی تاریخ گواہ ہے چنانچہ آپ ؓ کی رائے کو بھی اس میں شامل کرلیا گیا۔

ہمارا منشا یہ نہیں ہے کہ قدیم روایات پر شخصی رائے کو غالب کردیا جائے چنانچہ تمام جگہ مستند تسلیم کی جانے والی کتابوں کے حوالے پیش کئے ہیں چونکہ یہ تمام ثبوت بہت زیادہ ہیں اور زیادہ واضح ہیں اس لئے ان کی شہادت کو کسی بھی طرح رد نہیں کیا جا سکتا۔ اب ہم چند دیگر گزارشات کی جسارت بھی کریں گے۔ حضرت عائشہؓ کی کم عمری میں یا بچپن میں نکاح اور شادی عقلی اصولوں کے خلاف اور باعث شرم بھی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے سیدنا حضور علیہ ا اصلٰوة والسلام کے دور میں یا بعد میں کسی صحابی، تابعی، تبع تابعین، ولی ا للہ، مفسر، محدث، فقیہہ یا عالم نے نہ اپنی بیٹی کی شادی چھ یا نو سال میں کی نہ ان کے متبعین میں سے کسی ایک نے بھی اس کی جرات کی ۔ کیوں؟.... صرف اس لئے کہ ایسی شرمناک حرکت کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ چھ سال کی عمر ہی کتنی ہوتی ہے؟ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا آج ہم میں سے کوئی اپنی بچی، بہن ، بیٹی، بھانجی، بھتیجی یا کسی عزیز کی بیٹی کی شادی چھ یا نو سال میں کرنے کے بارے میں سوچ سکتا ہے؟

کچھ لوگ یہ بھی کہہ سکتے ہیں پرانے زمانے میں لڑکیاں جلد بالغ ہو جاتی تھیں اس لئے ممکن ہے ایسا ہو ا ہو۔ ہم ان سے سوال کرتے ہیں اگر یہ بات تسلیم کرلی جائے تو اس دور میں صحابہ، تابعین، تبع تابعین سے لے کر عام آدمی تک کسی سے بھی منسوب ایسا واقعہ کیوں نہیں ملتا۔ ہمارا ذاتی طور پر خیال یہ ہے کہ ابتدائی صدیوں کے صحابہ، تابعین اور دیگر اصحاب یہ جانتے تھے کہ حضرت عائشہؓ شادی کے وقت انیس برس کی تھیں اور عالم شباب میں تھیں۔

آج بھی طبعی، جسمانی اور ذہنی اعتبار سے انیس سال کی یہ عمر شادی کے لئے بہترین تسلیم کی جاتی ہے۔ ہماری اپنے مسلمان بھائیوں سے درخواست ہے کہ خدا راکچھ کہنے سے پہلے غور بھی کر لیا کیجئے سیرت کا مطالعہ محض رٹا لگا لینے کا نام نہیں اس میں تفکر کرنا بھی ہمارا فرض ہے۔ جو فعل اپنی بہن بیٹیوں کے لئے معیوب سمجھا جاتا ہو اسے نعوذ باللہ نفس کائنات سیدنا حضور ﷺ پر کیوں کر ڈالا جاسکتا ہے؟ ہم میں سے اکثر مسلمان نبی کریم ﷺ کے نام پر گردنیں کٹوانے سے بھی دریغ نہیں کرتے لیکن محترم دوستو! ہمیں ایسی چیزیں بھی ضرورمد نظر رکھنی چاہئیں جن سے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر اسلام پر حرف آ سکتا ہے۔ عام طور پر کسی بھی مذہبی موضوع پر گفتگو سے پہلے اس کا ثبوت مانگا جاتا ہے جو ہم نے مستند کتابوں کے حوالہ جات کی صورت میں دے دیا ہے۔ اب فیصلہ آپ کے اوپر ہے کہ اسلام کے اس پہلو کا جواب غیر مسلموں کو کیا دیتے ہیں۔

(سید قمر احمد سبزواری, Lahore)